شاعر (جُوئے سرود آفریں آتی ہے کوہسار سے)

شاعر (1924)
by محمد اقبال
295991شاعر1924محمد اقبال

جُوئے سرود آفریں آتی ہے کوہسار سے
پی کے شرابِ لالہ گُوں مے کدۂ بہار سے
مستِ مئے خرام کا سُن تو ذرا پیام تُو
زندہ وہی ہے کام کچھ جس کو نہیں قرار سے
پھرتی ہے وادیوں میں کیا دُخترِ خوش خرامِ ابر
کرتی ہے عشق بازیاں سبزۂ مَرغزار سے
جامِ شراب کوہ کے خُم کدے سے اُڑاتی ہے

پست و بلند کرکے طے کھیتوں کو جا پلاتی ہے
شاعرِ دل نواز بھی بات اگر کہے کھری
ہوتی ہے اُس کے فیض سے مزرعِ زندگی ہری
شانِ خلیل ہوتی ہے اُس کے کلام سے عیاں
کرتی ہے اُس کی قوم جب اپنا شِعار آزری
اہلِ زمیں کو نُسخۂ زندگیِ دوام ہے
خونِ جگر سے تربیت پاتی ہے جو سخنوری
گُلشنِ دہر میں اگر جُوئے مئے سخن نہ ہو
پھُول نہ ہو، کلی نہ ہو، سبزہ نہ ہو، چمن نہ ہو


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.