شام تکلیف کی دنیا میں سحر ہو تو سہی

شام تکلیف کی دنیا میں سحر ہو تو سہی
by میرزا الطاف حسین عالم لکھنوی

شام تکلیف کی دنیا میں سحر ہو تو سہی
ہائے کم بخت کہیں درد جگر ہو تو سہی

بیٹھنے والے نہ بیٹھیں گے کبھی محفل میں
او ستم گر ترے دل میں مرا گھر ہو تو سہی

دل بے تاب کا ملنا نہیں مشکل لیکن
ہاتھ بھر کا کسی سینے میں جگر ہو تو سہی

ہم یہ سمجھیں گے کہ دل تھا ہی نہیں سینے میں
ان کی دزدیدہ نگاہوں کا اثر ہو تو سہی

چھپ گیا آنکھوں سے اک نور بس اتنا کہہ کر
کیا بتانے میں حرج تھا کوئی گھر ہو تو سہی

کہہ کے یہ پھر گئی تھیں کاہکشاں سے آنکھیں
تجھ سے ملتی ہوئی وہ راہ گزر ہو تو سہی

پھر دکھاؤں گا میں انمول جواہر عالمؔ
مری قسمت سے کوئی اہل نظر ہو تو سہی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse