شاہی سیر کشمیر/اکبر اور کشمیر
جب اکبر پہلی مرتبہ کشمیر آیا ہے، اس وقت مرزا یوسف خاں گورنر کشمیر تھا۔ اکبر نے اسی کے مکان میں قیام کیا۔ سلطان شہاب الدین کے نام پر شہاب الدین پورہ دریا کے کنارے ایک دلکش جگہ تھی۔ بادشاہ یہاں کی سیر سے بہت محظوظ ہوا۔
اہل حرم بھی چند دنوں کے بعد آ پہنچے۔ مریم مکانی اکبر کی والدہ بھی ساتھ تھی۔ اس نے بادشاہ کے پاس آنے کی خواہش کی۔ بادشاہ نے جواب میں لکھا:
حاجی بسوئے کعبہ رود از برائے حج
یارب بود کہ کعبہ بیاید بسوئے ما
کشمیر کا آخری بادشاہ یعقوب شاہ اکبری اقبال کی تاب نہ لا کر جان چھپائے پھرتا تھا۔ آخر گرفتاری کے خوف سے بادشاہ کے پاس عرضداشت بھیجی۔ اس نے جان بخشی کی اور 20 ہزار کی جاگیر مقرر کر کے کشتواڑ میں رہنے کا حکم دیا جہاں وہ اس واقعہ کے پانچویں سال ١٠٠١ھ میں اپنے بھائی کے ہاتھ سے مارا گیا۔
بادشاہ نے مراج و کامراج کی سیر کشتی کے ذریعہ کی۔ پٹن کے مقام پر جو بارہ مولا اور سری نگر کے درمیان مشہور پڑاؤ ہے، ہزار ہا روپے کی خیرات کی۔ بادشاہ کا حکم تھا کہ کوئی افسر، کوئی اہلکار، کوئی سپاہی رعایا کے کسی فرد کو خواہ کسی حیثیت اور کسی مذہب کا ہو تکلیف دے گا تو اس سے سخت باز پرس کی جائے گی۔ چنانچہ رعایا نہایت امن اور آرام سے رہی۔ بادشاہ ایک ماہ پانچ دن کی سیر کے بعد واپس لاہور آ گیا۔
بادشاہ ٩٩٧ھ کی سیر کشمیر میں نشاط افزا نظارے دیکھ چکا تھا اور چاہتا تھا کہ ہر سال کشمیر آیا کرے مگر امرائے دولت برفباری کے خوف اور رستے کی تکلیفات کی وجہ سے اس کا ارادہ بدل دیا کرتے تھے۔ جب ١٠٠٠ھ میں مرزا یادگار نے (جو مرزا یوسف خاں گورنر کشمیر کے بادشاہ کے ہمراہ آ جانے کی وجہ سے حکومت کشمیر کا عارضی ناظم اور مرزا کا بھتیجہ بھی تھا) خوشامدیوں اور مفسدیوں کےکہنے میں علم بغاوت بلند کر لیا، بلکہ خطبہ و سکہ بھی اپنے نام کا جاری کر دیا تو بادشاہ باوجود امرائے دولت کے منع کرنے کے کشمیر کو روانہ ہو گیا۔ شورش کشمیر کس طرح ہوئی اور کس طرح مٹی یہ ایک طویل داستان ہے۔ مختصر یہ ہے کہ یادگار گرفتار ہو کر قتل کیا گیا۔ 51 روز تک اس نے کشمیرمیں سکہ و خطبہ اپنےنام کا جاری رکھا۔ باغیوں اور سرکشوں کی تحقیقات ہوئی۔ جو بانی مبانی تھے ان کو سزائیں ملیں اور باقی سب کے لیے عام معافی و جان بخشی کا اعلان ہوا۔ بادشاہ کے تلا دان کی رسم سری نگر میں ادا ہوئی۔ بادشاہ کے حکم سے ابو الفضل نے چودہ ہزار آدمیوں کو کھانا کھلایا۔ ابو الفضل لکھتا ہے: “اس ملک میں چور اور گدا بہت کم پائے جاتے ہیں”۔ بادشاہ زعفران کی سیر کو پانپور میں کشتی پر سوار ہو کر گیا۔ اس کی شادابی و نشاط بخشی اور خوشبو سے بہت خوش ہوا۔ پانچویں دن دیوالی تھی، حکم دیا کہ دریا کے کناروں پر کشتیوں کے اوپر اور مکانات کی چھتوں اور منڈیروں پر چراغ روشن کیے جائیں۔ حکم کی دیر تھی، شہر بقعۂ نور بن گیا۔ امرائے کشمیر اور کشمیر کے شاہی خاندان سے وہی رشتہ قائم کیا جو اس نے راجپوتانہ کے ہندو راجاؤں سے کیا تھا۔ شمس الدین چک کی بیٹی کو حرم سرا میں داخل کیا۔ درحسین چک کی بیٹی کا نکاح شہزادہ سلیم سےکیا۔ ان جدید تعلقات سے کشمیر کی شورش بہت کچھ کم ہو گئی۔
بادشاہ کو کشمیر کی صنعت میں ایک سیاہی دکھائی گئی جو پانی سے اور ہاتھ کے مٹانے سے محو نہ ہوتی تھی اور لکھنے میں خط کو خراب نہ کرتی تھی۔ بادشاہ کشمیریوں کی اس صنعت سے بہت خوش ہوا اور ان کی ذہانت کی تعریف کی۔ اسی سفر میں بادشاہ نے زینہ لنک کی سیر کی جو جھیل ولر کے درمیان سلطان زین العابدین نے پانی سے ایک جریب کے قریب بلند چبوترہ پر بڑے تکلف سے 11٩ گز لمبا اور 82 گز چوڑا بنایا تھا۔ نظام الدین طبقات اکبری میں لکھتا ہے: “جس خوبی سے اس چبوترہ پر عمارات عالی پانی میں پتھر ڈلوا کر زین العابدین نے بنوائی ہیں اس کی نظیر ملک میں کہیں نظر نہیں آتی۔” بادشاہ براہ بارہ مولا، پگھلی واپس لاہور آ گیا۔ پگھلی میں برف و بارش کی وجہ سے بادشاہ ایک ماہ تک رُکا رہا۔
اکبر تیسری مرتبہ ١٠٠٥ھ میں کشمیر گیا۔ آگرہ سےلاہور اور لاہور سے بھمبر میں آیا۔ یہاں فوج کے کئی حصے کیے۔ ایک حصہ اپنے لیے، ایک حرم سرا کے لیے، ایک شہزادہ سلیم کے لیے۔ راجوری میں معمول سے زیادہ دن ٹھہرا اور وہاں عظیم پیمانہ پر ایک جشن کیا۔ پیر پنجال کی برف جس کو دیکھ کر ہندوستانیوں اور پنچابیوں کے دم خشک ہو جاتے تھے کاٹ کر ہیرا پور آیا۔ یہاں سے حال نگری کی سیر کو گیا جس کی ویرانی اس کی آبادی اور جس کے کھنڈرات اس کی عالیشاں عمارتوں کا پتہ بتاتے تھے۔ منزل بمنزل چلتا اور بعض مقامات میں گھوڑے پر سوار ہو کر شکار کھیلتا ہوا سری نگر آ گیا۔ کوہ ماراں کے نیچے پہاڑ کے دامن میں بہت سی زمین خالی پڑی تھی۔ بادشاہ نے اس کے گرد فصیل اور مکانات بنانے کا حکم دیا اور پھر ایک قلعہ سنگین تعمیر کرایا جس نے کسانوں کی پراگندگی کو جو کمی بارش کی وجہ سے بڑھ رہی تھی اور گرانی اجناس کو جو بادشاہی سپاہ کے آنے سے بہت زیادہ ہو گئی تھی ، دور کر دیا۔ شہر میں بادشاہی حکم سے بارہ مقامات پر عام لنگر جاری ہوتا جہاں ہر حاجتمند کو کھانا ملتا۔ اس کے علاوہ ہر یک شنبہ و اتوار کو عید گاہ میں قریباً 80 ہزار بھوکوں کو خوراک ملا کرتی۔
قلعہ کی تعمیرنے غریب آدمیوں کو مزدوری پر لگا کر جانکاہی و جان کندنی سے بچا دیا۔ بادشاہ کے پاس رپورٹ پہنچی کہ کارپردازان سلطنت اور ان کے ماتحت اہلکار زمینداروں پر بہت ظلم کرتے ہیں۔ بادشاہ نے گروہا گروہ زمینداروں کی جمع معاف کر دی، ظالموں کو سزائیں دیں اور کشاورزی کےلیے بہت کچھ مدد دی۔ بادشاہ نے سری نگر میں مرزا یوسف خاں گورنر کشمیر کا وہ محل بھی دیکھا جس کے تین سو زینے تھے۔ شہاب الدین پورہ اور زینہ لنک کی دلفریبیوں اور دلچسپیوں نے پھر اس کا دامن دل کھینچا۔ چنانچہ بادشاہ اس سفر میں بھی ان مقامات کی سیر سے محظوظ ہوا۔ بادشاہ کے حکم سے دریا میں ایک ایسا جہاز بنایا گیا جیسا سمندر میں چلتا ہے۔ بادشاہ نے اس میں بیٹھ کر دریا کی خوب سیر کی۔
کشمیریوں میں خصوصاً ہندو کشمیریوں میں ایک روایت ہے کہ 13 بھادوں کی رات کو دریائے بہت (جہلم) جو شہر کے اندر بہتا ہے پیدا ہوا تھا اس لیے سب لوگ اس رات کو خوشی مناتے ہیں۔ اکبر تو عجیب طبیعت لے کے آیا تھا۔ وہ سمجھتا تھا سب کا مذہب میرا مذہب ہے۔ اس نے حکم دیا بادشاہ بھی اس خوشی میں شریک ہوگا۔ چنانچہ دریا کے کناروں پر، پہاڑوں پر، کشتیوں پر، مکانات پر چراغوں کی روشنی نے شہر کو نورستان بنا دیا۔ بادشاہ کے حکم سے ایک دلکشا مکان لکڑی کا جس کو کشمیر میں لڑی کہتے ہیں، بنا دیا گیا۔ بادشاہ نے اس خوشی میں وہاں جشن کیا اور لوگوں کو باریابی کا موقع دیا اور انعام و اکرام عطا کیے۔
خزاں کے دن تھے لیکن بادشاہ نے اس موسم میں بھی سری نگر کے باغوں میں سیب و شفتالو اور انگور و چنار کی فصل دیکھی۔ بادشاہ نے خزاں کی رنگ آمیزیوں پر بہار کا عالم دیکھ کر فرمایا:
ذوقِ فنا نیافتہ ورنہ در نظر
رنگیں تر از بہار بود جلوۂ خزاں
بادشاہ چاہتا تھا کہ کل ایام گرما و سرما اسی عشرت گاہ (کشمیر) میں بسر ہوں، لیکن بادشاہ کے ہمراہی اور اس کی فوجیں اور اہل حرم یہاں کے زمستان کا نام ہی سن کر لرز جاتے تھے۔ اس لیے بادشاہ گلزار زعفران (پانپور) میں سات روز قیام کرنے کے بعد پیر پنجال کی راہ سے لاہور واپس آ گیا۔ یہ سفر ایک ماہ دس روز میں طے کیا گیا۔