شاہی سیر کشمیر/جہانگیر کشمیر میں
توزک جہانگیری کو پڑھیے۔ جہانگیر میں مظاہر فطرت و مناظر قدرت کی ایک عجیب استعداد خداداد نظر آئے گی۔ اس کو باغوں اور پھولوں کا خاص شوق تھا اور کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ جب کسی نے پھولوں کا کوئی گلدستہ پیش کیا ہے تو اس نے اپنی چلتی سواری ٹھہرا لی ہے اور اس گلدستہ کو خود ہاتھ میں لیا ہے۔ اپنی عظیم الشان سلطنت کے بڑے بڑے تالابوں، جھیلوں اور آبشاروں کی حسن و خوبی کو خوب بیان کرتا ہے اور ہمالیہ پہاڑ کے مناظر و مظاہر کی نہایت دلکش تصویر کھینچتا ہے۔ وہ کشمیر بھی گیا اور کئی مرتبہ گیا۔ راستوں کی کیفیت، کشمیر کے سبزہ زاروں، مرغزاروں اور ڈل کے نظاروں سے وہ نہایت محظوظ ہوا۔ یہ تمام حالات اس نے اپنی توزک میں اپنے قلم سے تفصیل کے ساتھ لکھے ہیں۔ یہاں صرف ناظرین کی تفنن طبع کے لیے ان کا خلاصہ درج کیا جاتا ہے۔ بعض حالات میں اب بہت سا تفاوت ہے جیسے پرگنوں اور کشتیوں کی تعداد، محاصل کشمیر کا ذکر جن کو واقف کار ناظرین بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔
رستے کی کیفیتیں
حسن ابدال سے کشمیر تک جس راہ سے بادشاہ آیا، پچھتر (75)کوس کی مسافت تھی۔ جس کو بادشاہ نے 19 کوچ اور 9 مقام کر کے 25 روز میں طے کیا۔ حسن ابدال کا حال بادشاہ نے تفصیل سے لکھا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ اس منزل سے آگے پہاڑ کے نشیب و فراز کثرت سے ہیں۔ سارے لشکر کا ایک ہی دفعہ گزرنا محال تھا۔ اس لیے یہ طے پایا کہ حضرت مریم مکانی بیگمات کے ساتھ توقف کریں اور سہولت کے ساتھ تشریف لائیں۔ بیوتات کے میر سامان مدار الملک اعتماد الدولہ وغیرہ کو حکم دیا کہ تھوڑے تھوڑے آدمی گزریں۔ رستم مرزا صفوی اور خان اعظم اور ان کی جماعت کو ہدایت ہوئی کہ پونچھ کی راہ سے آؤ۔ بادشاہ خود خدمتگاروں کے ساتھ موضع سلطان پور میں آیا۔ اس ملک کے آدمیوں کی زبانی سنا کہ غیر ایام برسات میں جب کہ بجلی اور بارش کا مطلق اثر نہیں ہوتا، اس پہاڑ سے صدائے ابر کی مانند آواز آتی رہتی ہے جس سے اس کا نام کوہ گرج مشہور ہو گیا ہے۔ 20 سال ہوئے جب سے یہاں قلعہ کوہ پر ایک قلعہ بنایا گیا ہے، آواز کا آنا موقوف ہے۔ اس قلعہ کو گندھ گڑھ کہتے ہیں جو بظاہر گنج گڑھ معلوم ہوتا ہے، کیونکہ یہ پہاڑ درختوں اور سبزہ کے نہ ہونے سے خشک اور برہنہ ہے۔ سلہر اور نوشہرہ کے حالات میں بادشاہ لکھتا ہے :
“جہاں تک نظر کام کرتی تھی، یہ قطعہ سبزہ زاروں سے شگفتہ اور پھولوں سے گلریز نظر آتا تھا۔ سلہر میں ایک پھول دیکھا کہ اندام میں گل خطمی کے برابر اور رنگ میں سرخ آتشیں تھا۔ اسی رنگ کے اور بھی بہت پھول تھےلیکن وہ سب چھوٹے تھے۔ دور سے ان پھولوں کا نظارہ نہایت دلفریب معلوم ہوتا تھا۔ دامن کوہ میں بھی نہایت عجیب منظر تھا۔ یہاں سے گزر کر پگھلی کے علاقہ میں داخل ہوا جہاں معمولی برفباری سے بھی روشناس ہونا پڑا۔ چمبہ اس راہ میں کثرت سے تھا۔ شفتالو اور زرد آلو کے درختوں میں شگوفے لگے ہوئے تھے۔ صنوبر کے درخت مثل سرو کے دیدہ فریب تھے۔ پگھلی کا رئیس سلطان جبین مرزا زمیں بوس ہوا۔ اس نے اپنےمکان پر مجھے مدعو کیا۔ چونکہ والد ماجد (اکبر) بھی دوران سفر کشمیر میں اس کے گھر گئے تھے، اس لیے میں نے اس کی درخواست منظور کر لی اور اس کے ہمسروں میں اس کا درجہ بڑھایا۔ یہاں میوے بغیر پرورش کے خود رو ہوتے ہیں۔ اس علاقہ میں کشمیر کی روش پر خانہ و منازل چوب سے بناتے ہیں۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ چند منزل تک ایسی بستی نہیں ہے کہ وہاں غلہ اس قدر مل جائے کہ لشکر کفایت کرے، اس لیے ہاتھیوں اور ہمراہیوں کی تخفیف ہوئی جو بعد میں ہمارے ساتھ آ شامل ہوئے۔ پانچ کوس کے فاصلہ پر نین سُکھ کی ندی آئی جو بدخشاں اور تبت کے درمیانی پہاڑوں سے نکلتی ہے۔ ندی کی دونوں شاخوں پر دو پُل، ایک 17 گز، دوسرا 14 گز طولانی اور عرض میں صرف پانچ گز بنائے گئے۔ ہاتھیوں کو پایاب اُتارا اور سوار اور پیادے پُل پر سے اُترے۔ یہاں پُل لکڑی کے بنائے جاتے ہیں اور سالہا سال برقرار رہتے ہیں۔ تین کوس کے قریب چل کر دریائے کشن گنگا کے کنارے پر منزل ہوئی۔ راہ میں ایک پہاڑ جس کا ارتفاع ڈیڑھ کوس ہے، واقع ہے۔ پُل سےگزر کر ایک آبشار آتا ہے جو نہایت لطیف و صاف ہے۔ میں نے نہایت شوق سے سایۂ درخت میں اس کا پانی پیا۔ اُس پُل کے محاذ میں دوسرا پُل میں نے بھی تعمیر کرایا۔ پانی عمیق اور تند تھا۔ ہاتھیوں کو ننگا اس دریا سے عبور کرایا گیا۔ دریا کے مشرق میں عین پہاڑ پر میرے باپ کے حکم سے ایک پختہ سرائے پتھر اور چونے کی بنی ہوئی ہے۔”
بادشاہ مقام بھول باس سے کچھ آگے نکل گیا تھا کہ برف و باراں نے اُسے گھیر لیا۔ جہانگیر مع اہل حرم اس بلائے آسمانی سے بچنے کے لیے معتمد خاں مصنف اقبال نا مہ جہانگیری کے خیمہ میں جو بالکل خالی تھا، چلا گیا اور وہاں شبانہ روز رہا۔ جب معتمد خاں کو خبر ہوئی تو وہ پیادہ پا ڈھائی کوس کی مسافت کر کے دوڑا آیا۔ جو کچھ نقد و جنس اس کی بساط میں تھی، بادشاہ کو پیش کی۔ بادشاہ نے نذر معاف کر دی اور فرمایا، متاع دنیا ہماری چشم ہمت میں ہیچ ہے۔ ہم جوہر اخلاص کو گراں بہا سے خریدتے ہیں۔
راجا کشتواڑ کی حاضری
غرض 15؍ربیع الاول ١٠٢٩ھ مطابق 10 مارچ 1620ء کو سرحد کشمیر میں بادشاہ جب شہاب الدین پور میں آیا تو دلاور خاں حاکم کشمیر بادشاہ کی پیشوائی کے لیے اس منزل پر حاضر ہوا۔ راجا کشتواڑ کی سرکوبی کےلیے جو اپنے آپ کو سرکش و خود مختار سمجھتا تھا، دلاور خاں کو دس ہزار جنگی سواروں اور پیادہ کی جمعیت دے کر کشتواڑ روانہ کیا۔ راجا دو ایک معمولی لڑائیوں کے بعد تاب مقاومت نہ لایا، گرفتار ہو کر جہانگیر کے حضور میں لایا گیا۔ جہانگیر لکھتا ہے: راجا کی شکل وجاہت سے خالی نہیں تھی۔ اس کی پوشش اہل ہند کی روش پر تھی اور وہ ہندی اور کشمیری خوب بولتا تھا۔ وہ اپنے فرزندوں کو بادشاہ کی ملازمت میں دے کر مرحمت شاہی سے سرفراز ہوا۔
کشمیر کے قدیم فرمانروا
جہانگیر لکھتا ہے کشمیر اقلیم چہارم میں ہے۔ عرض اس کا خط استوا سے 35 درجہ اور طول اس کا جزیرہ سفید سے 105 درجہ ہے۔ اس ملک میں قدیم سے ہندو راجا حکومت کرتے تھے۔ ان کی حکومت کی مدت چار ہزار سال بیان کی جاتی ہے۔ ان کا حال تاریخ راج ترنگنی میں جو والد ماجد کے حکم سے سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ ہو چکی ہے، مفصل مرقوم ہے۔ ٧١٢ھ میں اس ملک نے نور اسلام سے روشنی پائی۔ 32 مسلمان بادشاہوں نے 282 برس اس ملک پر سلطنت کی ہے۔ ٩٩٤ھ میں والد ماجد نے اس کو فتح کیا اور اس تاریخ سے اب تک کہ 35 سال ہوئے ہمارے قبضہ میں ہے۔
شہر سری نگر
شہر کا نام سری نگر ہے۔ اس کی آبادی کے اندر سے دریائے بہت (جہلم) گزرتا ہے۔ اس کے سرچشمہ کا نام ویرناگ ہے، وہ شہر سے چودہ کوس پر جانب جنوب واقع ہے۔ میں نے اس چشمہ کے اوپر ایک عمارت اور باغ ترتیب دیا ہے۔ شہر میں چار پل سنگ و چوب کے نہایت مستحکم بنے ہوئے ہیں۔ اس ملک کی اصطلاح میں پُل کو کدل کہتے ہیں۔ شہر میں ٧٩٥ھ میں ایک مسجد نہایت عالی سلطان سکندر نے بنائی تھی۔ ایک مدت کے بعد وہ جل گئی۔ ٩٠٩ھ میں ابراہیم ماگرے وزیر سلطان حسین کے زمانہ میں دوبارہ تعمیر ہوئی۔ حکام کشمیر کی سب سے عمدہ یادگار یہی مسجد ہے۔ آدمیوں کی آمد و رفت اور غلہ وغیرہ کا کاروبار اکثر کشتیوں ہی کے ذریعہ ہوتا ہے۔ شہر اور پرگنوں میں 5070 کشتیاں اور 7400 ملاح ہیں۔
انتظام اور آمدنی وغیرہ
کشمیر میں 38 پرگنے ہیں جن کے دو حصے کیے گئے ہیں۔ بالائے آب کو مراج اور پایان آب کو کامراج کہتے ہیں۔ ہر خر وارتین من 8 سیر وزن حال ہے۔ کشمیری دو سیر کو ایک من اور چار من یعنی 8 سیر کو ایک ترکھ کہتے ہیں۔ ولایت کشمیر کی جمع 30 لاکھ 63 ہزار پچاس خروار اور گیارہ ترکھ ہے جو بحساب نقدی سات کروڑ 46 لاکھ 70 ہزار دام ہوتی ہے۔
کشمیر کی بہار
جہانگیر اکثر کہا کرتا تھا کہ کشمیر میری قلمرو میں بہشت روئے زمیں ہے اور اسی لیے ہر سال کشمیر کی سیر کو جاتا تھا۔ اس نے کشمیر کی بہت تعریف کی ہے۔ وہ لکھتا ہے: کشمیر ایک باغ ہے سدا بہار، قلعہ ہے آہنی حصار۔ بادشاہوں کے لیے ایک گلشن عشرت افزا ہے، درویشوں کے لیے ایک خلو ت کدۂ دلکشا ہے۔ چمن خوش، آبشار دلکش۔ آب ہائے رواں شرح و بیان سے زیادہ اور چشمہ سار حساب و شمار سے باہر ہیں۔ بہار میں کوہ و دشت اقسام شگوفہ سے مالا مال۔ در و دیوار اور صحن و بام گھروں کے مشعل لالہ سے بزم افروز ہیں۔ کشمیر میں لکڑی کے مکانات یک منزلہ سے 4 منزلہ تک بناتے ہیں اور چھتوں کو خاک پوش کر کے پیاز لالہ کو سال بہ سال لگاتے ہیں۔ موسم بہار میں وہ کھل کر نہایت خوشنما معلوم ہوتا ہے۔ “استاد حضور” نے جو تصویریں کھینچی ہیں وہ سو سے زیادہ ہیں۔
باشندوں کے حالات اور دیگر کوائف
چنا اس ملک میں اول سال خوب پیدا ہوتا ہے۔ دوسرے سال کم اور چھوٹا اور تیسرے سال مونگ کی دال کے برابر ہوتا ہے ۔ زمانہ سابق میں یہاں اچھا اور قد آور گھوڑا اور گاؤ اور گاؤ میش بالکل کمیاب تھے۔ تازہ طعام کھانے کا رواج بہت کم ہے۔ عموماً ایک وقت کا پکا ہوا دو وقت کھاتے ہیں۔ طعام میں نمک ڈالنے کا رواج اس قدر کم ہے کہ مردوں کے چہرہ پر نمک کا اثر نہیں ہے۔ عورت و مرد کا ملبوسات پشمینہ متعارف ٹپّو ہے۔ اس ملک کے باشندوں کا قول ہے کہ اگر ہم یہ نہ پہنیں تو ہوا کا اثر جسم پر ایسا ہوتا ہے کہ کھانا ہضم نہیں ہو سکتا۔ اس ٹپو کا ایک کرتہ عورتیں تین چار سال تک پہنتی ہیں اور کبھی اس کو دھلواتی نہیں۔ بحالیکہ پانی کی یہ بہتات ہے کہ ہر محلہ میں نہر جاری ہے۔ اس گل زمین کے باشندے جدت فہم و ذکا اور جوہر رشادت سے آراستہ ہیں۔ کشمیری گول پگڑی پہنتے ہیں۔ ازار پہننا عیب جانتے ہیں۔ کرتہ دراز و فراخ سر سے پا تک پہنتے ہیں اور کمر باندھتے ہیں۔ اس ملک کے آدمی سوداگر اور اہل حرفت ہیں۔ سُنی، شیعہ اور ہنود کے علاوہ ایک فرقہ نور بخشی مذہب کا بھی ہے جو اہل سنت اہل تشیع دونوں کے برخلاف ہے۔ جہانگیر لکھتا ہے کہ عبادات و معاملات میں اس فرقہ نے اس قبیل کے تصرفات کیے ہیں کہ تفرقہ عظیم ہو گیا ہے۔ میں نے ان کی کتاب موطۂ نور بخشیہ علمائے ہندوستان کے پاس فتوے کے لیے بھیجی جنھوں نے بالاتفاق لکھا کہ اس قسم کی کتاب کا مٹا دینا اور معدوم کر دینا واجبات و فرائض سے ہے۔ برہمنوں اور مسلمانوں کا لباس یکساں ہے لیکن برہمنوں کی مذہبی کتابیں سنسکرت زبان میں ہیں، وہ ان کو پڑھتے ہیں اور بت پرستی کی شرائط کو ادا کرتے ہیں۔ بت خانوں کی عمارتیں سنگین ہیں اور بنیاد سے لے کر چھت تک ان میں تیس تیس چالیس چالیس من کے پتھر لگے ہوئے ہیں۔ شہر کے متصل کوہ ماراں یا ہری پربت ہے جہاں والد ماجد نے ایک قلعہ بنوایا ہے۔ میں نے یہاں ایک باغ لگایا جس کا نام نور افزا رکھا ہے۔
کشمیر میں نئی باتوں کا رواج
اقبال نامہ میں لکھا ہے کہ اکبر کے عہد میں کشمیر کا حاکم مرزا حیدر تھا۔ اس کے زمانہ میں کشمیر میں اسپ کلاں کی سواری اور بنائے عمارات دل نشیں اور اکثر وضع معقول کا رواج ہوا۔ اشجار میوہ دار کے پیوند لگانے کا رواج اکبر کے زمانے سے پہلے تمام ہندوستان میں بھی نہ تھا۔ اس کو محمد قلی افشار داروغہ باغات کشمیر نے رواج دیا۔ اول کابل سے شاہ آلو کو منگوا کرپیوند دیا گیا تو یہاں کی آب و ہوا اس کو موافق آئی۔ جب اس میں کامیابی ہوئی تو اور بھی کئی درختوں کو آزمایا گیا۔ جن سے خوب شادابی بڑھی۔
دریائے جہلم کی سیر
جہانگیر لکھتا ہے، جمعہ کو میں ویری ناگ کے سرچشمہ دریائے بہت (جہلم) کی سیر کو روانہ ہوا۔ پانچ کوس کشتی میں گیا۔ موضع پان پور کے باہر اترا لیکن کشتواڑ سے جب یہ خبر آئی کہ نصر اللہ عرب کو (جس کو دلاور خاں حاکم کشتواڑ کشتواڑ کی فتح اور راجا کی گرفتاری کے بعد کشتواڑ کا محافظ بنا آیا تھا) کشتواڑیوں نےاس کے ظلم و تشدد کی وجہ سے ایک لڑائی میں مار ڈالا ہے تو تمام سیر منغض ہو گئی۔
کشت زعفران
جہانگیر جب سیر کشمیر سے فارغ ہو کر ہندوستان کو واپس چلا تو زعفران کے پھول کھل رہے تھے۔ بادشاہ شہر سے کوچ کر کے موضع پان پور میں آیا جو زعفران کی پیدائش کے لیے تمام کشمیر میں مشہور ہے۔ جہانگیر لکھتا ہے: جہاں تک نظر کام کرتی تھی، پھول ہی پھول دکھائی دیتے تھے۔ اس کی نسیم دماغوں کو معطر کرتی تھی۔ زعفران کا مُنہ زمین سے پیوستہ ہوتا ہے۔ اس کے پھول کی پانچ پتیاں بنفشہ کے رنگ کی ہوتی ہیں۔ یہ معمولی سالوں میں 400 من یعنی ٣٢٠ خراسانی من پیدا ہوتا ہے۔ نصف حصہ خالصہ یعنی بادشاہ کا ہوتا ہے اور نصف حصہ رعایا کا۔ ایک سیر دس روپیہ کو فروخت ہوتا ہے۔ کبھی کبھی یہ نرخ کم و بیش بھی ہو جاتا ہے۔ گل زعفران کو تول کر کاریگر اپنے گھر لے جاتے ہیں اور زعفران اس میں سے نکالتے ہیں۔ وہ اس کو بادشاہی ملازموں کو دیتے ہیں اور اپنی اجرت میں اُن سے زعفران کے وزن کے برابر نمک لیتے ہیں۔ کشمیر میں نمک نہیں ہوتا۔ ہندوستان میں سے آتا ہے۔ کشمیر میں عمارات جہانگیری
بادشاہ چونکہ سفر کشمیر کے تجربہ سے برف و باراں کی تکالیف اٹھا چکا تھا، اس لیے اس نے حکم دیا کہ کشمیر سے انتہائے کوہستان تک ہر منزل میں بادشاہ اور اس کے اہل حرم کے لیے ایک عمارت عالیشان تعمیر کی جائے کہ سرما اور برف میں خیموں میں گزارہ نہیں ہو سکتا۔ کشمیر کے معماران چابکدست اور کارداران زیرک نے بہت تھوڑے دنوں میں یہ عمارتیں تعمیر کر دیں۔ بادشاہ نے ایک باغ تعمیر کرایا۔ اس میں ایک تصویرخانہ بنوایا جس میں سب سے اوپر اکبر اور ہمایوں کی تصویر تھی، پھر اپنی اور اپنے ہمعصر شاہ عباس والیٔ ایران کی۔ پھر درجہ بدرجہ شہزادوں اور امرائے خاص کی تصاویر رکھی گئیں۔
تھنہ و راجوری کے راستے واپسی
جہانگیر میں یہ بہت بڑی خوبی تھی کہ وہ جن مشہور اضلاع و مقامات میں سے گزرتا تھا، ان کے تاریخی حالات کی خوب تحقیقات کرتا اور وہاں کے باشندوں کی حالتیں، رسم و رواج، طرز معاشرت، آب و ہوا، غرض ہر چیز کا بیان لکھتا۔ چنانچہ واپسی کے وقت جب وہ تھنہ میں پہنچا، جو پیر پنجال کے نشیب میں واقع ہے اور وہاں سے راجوری کو روانہ ہوا، تو اس منزل کی کیفیت میں لکھتا ہے کہ یہاں کے آدمی فارسی اور ہندی دونوں زبانیں بولتے ہیں۔ اصل زبان ان کی ہندی ہے۔ قرب و جوار کے سبب سے کشمیری بھی عام طور پر بولی جاتی ہے۔ یہاں کی عورتیں پشمینہ کا لباس نہیں پہنتیں۔ ہندوستان کی عورتوں کی طرح ناک میں نتھ کا استعمال کرتی ہیں۔ راجور کے باشندے پہلے زمانے میں ہندو تھے۔ یہاں کے رئیس کو راجا کہتے ہیں۔ ہرچند یہاں مسلمان کثرت سے ہیں لیکن ہندو پنے کی رسمیں اُن میں جاری تھیں۔ یہاں تک ہوتا تھا کہ ہندو عورتوں کی طرح مسلمان عورتیں بھی اپنے خاوند کے ساتھ زندہ دفن ہو جاتی تھیں۔ اکثر بے بضاعت اور جاہل آدمی اپنی لڑکیوں کو ہلاک کر ڈالتے تھے۔ ہندوؤں سے رشتہ داری بھی جاری تھی۔ لڑکی دیتے بھی تھے اور لیتے بھی تھے۔ جہانگیر لکھتا ہے کہ یہ حالات جب میرے گوش گزار ہوئے تو میں نے سختی سے ایک فرمان جاری کیا کہ پھر یہ باتیں نہ ہونے پائیں اور جو کوئی ان کاموں کا مرتکب ہو اس کو خوب سزا دی جائے۔ کسی مسلمان کا کسی ہندو کو لڑکی دے دینا سخت جرم قرار دیا گیا۔ لڑکی لینا چنداں جرم نہیں تھا۔