شبنم تو باغ میں ہے نہ یوں چشم تر کہ ہم
شبنم تو باغ میں ہے نہ یوں چشم تر کہ ہم
غنچہ بھی اس قدر ہے نہ خونی جگر کہ ہم
جوں آفتاب اس مہ بے مہر کے لیے
ایسے پھرے نہ کوئی پھرا در بدر کہ ہم
کہتا ہے نالہ آہ سے دیکھیں تو کون جلد
اس شوخ سنگ دل میں کرے تو ہے گھر کہ ہم
ہے ہر در سخن پہ سزا وار گوش یار
موتی صدف رکھے ہے پر ایسے گہر کہ ہم
منہ پر سے شب نقاب اٹھا یار نے کہا
روشن جمال دیکھ تو اب ہے قمر کہ ہم
زر کیا ہے مال تجھ پہ کریں نقد جاں نثار
اتنا تو اور کون ہے اے سیم بر کہ ہم
تا زیست ہم بتوں کے رہے ساتھ مثل زلف
یوں عمر کس نے کی ہے جہاں میں بسر کہ ہم
غصہ ہو کس پہ آئے ہو جو تیوری چڑھا
لائق عتاب کے نہیں کوئی مگر کہ ہم
بیدارؔ شرط ہے نہ پلک سے پلک لگے
دیکھیں تو رات جا کے ہے یا تو سحر کہ ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |