شب تم جو بزم غیر میں آنکھیں چرا گئے
شب تم جو بزم غیر میں آنکھیں چرا گئے
کھوئے گئے ہم ایسے کہ اغیار پا گئے
پوچھا کسی پہ مرتے ہو اور دم نکل گیا
ہم جان سے عناں بہ عنان صدا گئے
پھیلی وہ بو جو ہم میں نہاں مثل غنچہ تھی
جھونکے نسیم کے یہ نیا گل کھلا گئے
اے آب اشک آتش عنصر ہی دیکھنا
جی ہی گیا اگر نفس شعلہ زا گئے
مجلس میں اس نے پان دیا اپنے ہاتھ سے
اغیار سبز بخت تھے ہم زہر کھا گئے
اٹھا نہ ضعف سے گل داغ جنوں کا بوجھ
قاروں کی طرح ہم بھی زمیں میں سما گئے
غیروں سے ہو وہ پردہ نشیں کیوں نہ بے حجاب
دم ہائے بے اثر مرے پردہ اٹھا گئے
تھی بد گمانی اب انہیں کیا عشق حور کی
جو آ کے مرتے دم مجھے صورت دکھا گئے
تابندہ و جوان تو بخت رقیب تھے
ہم تیرہ روز کیوں غم ہجراں کو بھا گئے
بے زار زندگانی کا جینا محال تھا
وہ بھی ہماری لاش کو ٹھوکر لگا گئے
واعظ کے ذکر مہر قیامت کو کیا کہوں
عالم شب وصال کے آنکھوں میں چھا گئے
جس وقت اس دیار سے اغیار بوالہوس
بد خوئیوں سے یار کے ہو کر خفا گئے
دنیا ہی سے گیا میں جونہی ناز سے کہا
اب بھی گمان بد نہ گئے تیرے یا گئے
اے مومنؔ آپ کب سے ہوئے بندۂ بتاں
بارے ہمارے دین میں حضرت بھی آ گئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |