شب جوش گریہ تھا مجھے یاد شراب میں

شب جوش گریہ تھا مجھے یاد شراب میں
by مفتی صدر الدین خان آزردہ

شب جوش گریہ تھا مجھے یاد شراب میں
تھا غرق میں تصور آتش سے آب میں

یا رب وہ خواب حق میں مرے خواب مرگ ہو
آوے وہ مست خواب اگر میرے خواب میں

یا رب یہ کس نے چہرے سے الٹا نقاب جو
سو رخنے اب نکلنے لگے آفتاب میں

کیا عقل محتسب کی کہ لایا ہے کھینچ کر
سودا زدوں کو محکمۂ احتساب میں

ہم جان و دل کو دے چکے موہوم امید پر
اب ہو سو ہو ڈبو دے یہ کشتی شراب میں

کچھ بھی لگی نہ رکھی ڈبو دی رہی سہی
دل کو نہ ڈالنا تھا سوال و جواب میں

الفت میں ان کی اب تو ہے جانوں کی پڑ گئی
دل کس شمار میں ہے جگر کس حساب میں

تھے جستجو میں روز ازل جائے درد کی
آیا پسند دل مرا اس انتخاب میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse