شب فراق کچھ ایسا خیال یار رہا
شب فراق کچھ ایسا خیال یار رہا
کہ رات بھر دل غم دیدہ بے قرار رہا
کہے گی حشر کے دن اس کی رحمت بے حد
کہ بے گناہ سے اچھا گناہگار رہا
ترا خیال بھی کس درجہ شوخ ہے اے شوخ
کہ جتنی دیر رہا دل میں بے قرار رہا
شراب عشق فقط اک ذرا سی چکھی تھی
بڑا سرور گھٹا مدتوں خمار رہا
انہیں غرض انہیں مطلب وہ حال کیوں پوچھیں
بلا سے ان کی اگر کوئی بے قرار رہا
تمہیں کبھی نہ کبھی مر کے بھی دکھا دوں گا
جو زندگی نے وفا کی جو برقرار رہا
ادائیں دیکھ چکے آئینے میں آپ اپنی
بتائیے تو سہی دل پر اختیار رہا
شب وصال بڑے لطف سے کٹی اے ہجرؔ
تمام رات کسی کے گلے کا ہار رہا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |