شب فراق ہے اور نیند آئی جاتی ہے

شب فراق ہے اور نیند آئی جاتی ہے
by جگر مراد آبادی

شب فراق ہے اور نیند آئی جاتی ہے
کچھ اس میں ان کی توجہ بھی پائی جاتی ہے

یہ عمر عشق یوں ہی کیا گنوائی جاتی ہے
حیات زندہ حقیقت بنائی جاتی ہے

بنا بنا کے جو دنیا مٹائی جاتی ہے
ضرور کوئی کمی ہے کہ پائی جاتی ہے

ہمیں پہ عشق کی تہمت لگائی جاتی ہے
مگر یہ شرم جو چہرے پہ چھائی جاتی ہے

خدا کرے کہ حقیقت میں زندگی بن جائے
وہ زندگی جو زباں تک ہی پائی جاتی ہے

گناہ گار کے دل سے نہ بچ کے چل زاہد
یہیں کہیں تری جنت بھی پائی جاتی ہے

نہ سوز عشق نہ برق جمال پر الزام
دلوں میں آگ خوشی سے لگائی جاتی ہے

کچھ ایسے بھی تو ہیں رندان پاک باز جگرؔ
کہ جن کو بے مئے و ساغر پلائی جاتی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse