شب نہ یہ سردی سے یخ بستہ زمیں ہر طرف ہے

شب نہ یہ سردی سے یخ بستہ زمیں ہر طرف ہے
by ولی اللہ محب

شب نہ یہ سردی سے یخ بستہ زمیں ہر طرف ہے
مہ پکارے ہے فلک پروردگی تو برف ہے

شاہ گل کا حکم سیاروں کے یہ ہے باغ میں
جو نہ پی کر آئے مے نوکر نہیں بر طرف ہے

سرخ ہے رومال شالی اس کے تحت الجنگ تک
مصحف رخسار پر یا جدول شنگرف ہے

نو خطوں کے دل میں جز مشق ستم طرز وفا
یکسر مو ہو سکے کرسی نشیں کیا حرف ہے

درس علم عشق سے واقف نہیں مطلق فقیہ
نحو ہی میں محو ہے یا صرف ہی میں صرف ہے

مو سے ہے باریک شعر و شاعری کے درمیاں
معنیٔ مصراع قامت کیا قیامت ژرف ہے

زاہد خشک و خنک سے کب ہو صحبت ان کی گرم
آتش تر سے محبؔ جن کا لبالب ظرف ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse