شب وصل بھی لب پہ آئے گئے ہیں
شب وصل بھی لب پہ آئے گئے ہیں
یہ نالے بہت منہ لگائے گئے ہیں
خدا جانے ہم کس کے پہلو میں ہوں گے
عدم کو سب اپنے پرائے گئے ہیں
وہی راہ ملتی ہے چل پھر کے ہم کو
جہاں خاک میں دل ملائے گئے ہیں
مرے دل کی کیونکر نہ ہو پائمالی
بہت اس میں ارمان آئے گئے ہیں
گلے شکوے جھوٹے بھی تھے کس مزے کے
ہم الزام دانستہ کھائے گئے ہیں
نگہ کو جگر زلف کو دل دیا ہے
یہ دونوں ٹھکانے لگائے گئے ہیں
رہے چپ نہ ہم بھی دم عرض مطلب
وہ اک اک کی سو سو سنائے گئے ہیں
فرشتے بھی دیکھیں تو کھل جائیں آنکھیں
بشر کو وہ جلوے دکھائے گئے ہیں
چلو حضرت داغؔ کی سیر دیکھیں
وہاں آج بھی وہ بلائے گئے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |