شب وصل دیکھی جو خواب میں تو سحر کو سینہ فگار تھا

شب وصل دیکھی جو خواب میں تو سحر کو سینہ فگار تھا
by شیخ قلندر بخش جرات
296694شب وصل دیکھی جو خواب میں تو سحر کو سینہ فگار تھاشیخ قلندر بخش جرات

شب وصل دیکھی جو خواب میں تو سحر کو سینہ فگار تھا
یہی بس خیال تھا دم بہ دم کہ ابھی تو پاس وہ یار تھا

جو نہ تھا وہ غیرت گلستاں تو کروں اب اس کا میں کیا بیاں
کہ الم جدائی کا ہر زماں مرے ایک دل پہ ہزار تھا

شب ہجر کے کہیں کیا الم نظر آئے صبح کو بہتے یم
کہ بہ جوش بارش ابر غم پہ بندھا سرشک کا تار تھا

تپ غم سے تھا جو جلا بلا مرے سینے میں دل مبتلا
سو دھواں ہو یوں وہ ہوا ہوا کہ نہ شعلہ تھا نہ شرار تھا

کبھی دست زلف سے تھے بہم کبھی رخ کے لیتے تھے بوسے ہم
شب و روز اب تو ہے درد و غم کبھی ووں بھی لیل و نہار تھا

جسے یاد اپنی لگائیے اسے صاف دل سے بھلائیے
ٹک ادھر تو آنکھ ملائیے یہی ہم سے قول و قرار تھا

شب ہجر اب یہ ستائے ہے کہ خزان مرگ دکھائے ہے
وہ رخ اب کہاں نظر آئے ہے کہ جو رشک صبح بہار تھا

مجھے شب جو نشۂ غم چڑھا تو پھرا کیا میں کھڑا کھڑا
رہا غش میں صبح کو جو پڑا اسی کیف کا یہ اتار تھا

ہوئی حیرت اب جو دو چند یاں کروں اور وجہ میں کیا بیاں
رخ یار صبح کو مہر ساں مگر آئنے سے دو چار تھا

مجھے ایک عاشق خستہ کی کہیں کل جو قبر نظر پڑی
نہ کسی سے کوئی لگائے جی یہ کھدا بہ لوح مزار تھا

دم قتل کوئی جو بول اٹھا تو خجل ہو کیا وہ خفا ہوا
اسے تم نے ذبح عبث کیا یہ تمہارا شکر گزار تھا

کوئی ناؤ بحر میں تھی رواں کئی اس میں بیٹھے تھے مہو شاں
کہیں اس گروہ کے درمیاں در ناز بھی وہ سوار تھا

تو بہ موج پرتو ماہ سا کہو اضطراب میں دل کا کیا
کبھی پار تھا کبھی وار تھا کبھی وار تھا کبھی پار تھا

غزل اور قافیے کو بدل میں سناؤں یاروں کو بر محل
ہوا مختصر نہ بہ یک غزل کہ بڑا فسانۂ یار تھا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.