شب وصل کی بھی چین سے کیوں کر بسر کریں
شب وصل کی بھی چین سے کیوں کر بسر کریں
جب یوں نگاہبانیِ مرغِ سحر کریں
محفل میں اک نگاہ اگر وہ ادھر کریں
سو سو اشارے غیر سے پھر رات بھر کریں
طوفانِ نوح لانے سے اے چشم فائدہ؟
دو اشک بھی بہت ہیں، اگر کچھ اثر کریں
آز و ہوس سے خلق ہوا ہے یہ نامراد
دل پر نگاہ کیا ہے، وہ مجھ پر نظر کریں
کچھ اب کے ہم سے بولے تو یہ جی میں ہے کہ پھر
ناصح کو بھی رقیب سے آزردہ تر کریں
واں ہے وہ نغمہ جس سے کہ حوروں کے ہوش جائیں
یاں ہے وہ نالہ جس سے فرشتے حذر کریں
اہلِ زمانہ دیکھتے ہیں عیب ہی کو بس
کیا فائدہ جو شیفتہ عرضِ ہنر کریں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |