شب کس سے یہ ہم جدا رہے ہیں
شب کس سے یہ ہم جدا رہے ہیں
تا صبح نپٹ خفا رہے ہیں
آنا ہے تو آ وگرنہ پیارے
ہم آپ سے آج جا رہے ہیں
بیٹھیں پس کار خویش کیوں کر
جو ناز ترے اٹھا رہے ہیں
ویرانے سے میرے ڈر نہ اے چغد
اک وقت تو یاں ہما رہے ہیں
اے ہستی تو کھینچ نقش باطل
ہم ہیں تو اسے مٹا رہے ہیں
پھر عازم گریہ ہوں کہ طوفاں
جوں ابر نظر میں چھا رہے ہیں
رونا ہے اگر یہی تو قائمؔ
اک خلق کو ہم ڈبا رہے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |