شب کو پھرے وہ رشک ماہ خانہ بہ خانہ کو بہ کو
شب کو پھرے وہ رشک ماہ خانہ بہ خانہ کو بہ کو
دن کو پھروں میں داد خواہ خانہ بہ خانہ کو بہ کو
قبلہ نہ سرکشی کرو حسن پہ اپنے اس قدر
تم سے بہت ہیں کج کلاہ خانہ بہ خانہ کو بہ کو
خانہ خراب عشق نے کھو کے مری حیا و شرم
مجھ کو کیا ذلیل آہ خانہ بہ خانہ کو بہ کو
تو نے جو کچھ کہ کی جفا تا دم قتل میں سہی
میری وفا کے ہیں گواہ خانہ بہ خانہ کو بہ کو
تیری کمند زلف کے ملک بہ ملک ہیں اسیر
بسمل خنجر نگاہ خانہ بہ خانہ کو بہ کو
کل تو نے کس کا خوں کیا مجھ کو بتا کہ آج ہے
شور و فغاں و آہ آہ خانہ بہ خانہ کو بہ کو
مجھ کو بلا کے قتل کر یا تو مرے گناہ بخش
ہوں میں کہاں تلک تباہ خانہ بہ خانہ کو بہ کو
سینہ فگار و جامہ چاک گریہ کناں و نعرہ زن
پھرتے ہیں تیرے داد خواہ خانہ بہ خانہ کو بہ کو
تاباںؔ ترے فراق میں سر کو پٹکتا رات دن
پھرتا ہے مثل مہر و ماہ خانہ بہ خانہ کو بہ کو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |