شب ہجراں کی وحشت کو تو اے بیداد کیا جانے
شب ہجراں کی وحشت کو تو اے بیداد کیا جانے
جو دن پڑتے ہیں راتوں کو مجھے تیری بلا جانے
جدا ہم سے ہوا تھا ایک دن جو اپنے یاروں میں
خبر پھر کچھ نہ پائی کیا ہوا واقع خدا جانے
نہ رکھ اے ابر تو سر پر ہمارے بار منت کا
وہ بادل اور ہیں جو آگ کو دل کی بجھا جانے
نہ رکھ اے دل تو امید وفا ان بے وفاؤں سے
خدا سے ہے وہ بیگانہ جو بت کو آشنا جانے
جنوں نے اس کے گل سے بلبلوں تک شور ڈالا ہے
یقیںؔ سا ہو کوئی تب اس طرح دھومیں مچا جانے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |