شب ہجراں کی وحشت کو تو اے بیداد کیا جانے

شب ہجراں کی وحشت کو تو اے بیداد کیا جانے
by انعام اللہ خاں یقین
311874شب ہجراں کی وحشت کو تو اے بیداد کیا جانےانعام اللہ خاں یقین

شب ہجراں کی وحشت کو تو اے بیداد کیا جانے
جو دن پڑتے ہیں راتوں کو مجھے تیری بلا جانے

جدا ہم سے ہوا تھا ایک دن جو اپنے یاروں میں
خبر پھر کچھ نہ پائی کیا ہوا واقع خدا جانے

نہ رکھ اے ابر تو سر پر ہمارے بار منت کا
وہ بادل اور ہیں جو آگ کو دل کی بجھا جانے

نہ رکھ اے دل تو امید وفا ان بے وفاؤں سے
خدا سے ہے وہ بیگانہ جو بت کو آشنا جانے

جنوں نے اس کے گل سے بلبلوں تک شور ڈالا ہے
یقیںؔ سا ہو کوئی تب اس طرح دھومیں مچا جانے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.