شرر کے سفرنامے/اٹلی کی مختصر سیر

اٹلی کی مختصر سیر


کریٹ کے سواحل جب ہماری نظر سے غائب ہو گئےاور چند چھوٹے چھوٹے جزائر یونان نےقدیم دیوبانی کی کہانیاں زبان حال سے سنا کے اپنے سر بُعد کے دُھندلکے میں چھپا لیے تو تھوڑی دیر کے لیے ہمارا جہاز ایک ناپیدا کنار حصۂ بحر میں آگیا۔ ہماری نگاہیں خشکی کی جستجو میں ابھی اچھی طرح تھکنے بھی نہیں پائی تھیں کہ سامنے اور داہنے ہاتھ کی طرف پھیلے ہوئے ہمیں سواحل ایطالیہ نظر آئے جن کو شوق کی کشش ساعت بساعت قریب کرتی جاتی تھی۔ تقریباً ایک گھنٹے کے اندر ہم سواحل کے قریب ہی تھے، مگر ابھی وہ مقام دور تھا جہاں جہاز لنگر انداز ہونے کو ہے۔

جس طرح یونان کے بعد دولت روما نے ترقی کا جھنڈا بلند کیا تھا، اسی طرح یونانی سواحل کے بعد اب ہم ایطالیۂ عظمی (روم) کے سواحل کی اجمالی سیر دور ہی دور سے کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس قدیم صفحہ پر جدید ترقی نے رنگ چڑھا دیا ہے اور نئی وضع کے مکانات اور گاؤں نظر کے سامنے آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ آبادی اپنے ایشیا کے سواحل کی بہ نسبت ہمیں یہاں زیادہ نظر آتی ہے۔ یہاں پہاڑیوں کا سلسلہ اس طرح ملا ہوا نہیں ہے جس طرح ہمیں بمبئی اور عرب کے سواحل پر دکھائی دیتا تھا، پہاڑیوں کے درمیان میں اکثر جگہ کھلے مسطح اور سرسبز و شاداب میدان بھی نظر کے سامنے ہو جاتے ہیں۔

چار بجے معلوم ہوا کہ برنڈزی کا خلیج سامنے نظر آتا ہے۔ دور بینیں آنکھوں پر لگ گئیں اور ہر شخص عید کے چاند کی طرح اٹلی کے اس بندرگاہ کی عمارتوں کو دیکھنے لگا۔ سمندر کے اندر ایک خوشنما برج سامنے نظر آیا، جو دراصل لائٹ ہوس (روشنی کا مینار) تھا۔ اس برج کے قریب پہنچے تو ایک دوسرا برج دکھائی دیا، ان دونوں برجوں کے درمیان میں ایک خلیج سی واقع ہے جو خلیج برنڈزی کہلاتی ہے اور اس کے دہانے پر دونوں جانب یہ دو برج یا لائٹ ہوس پھاٹک کا کام دے رہے ہیں۔

جہاز اس دریائی پھاٹک میں داخل ہوا اور چند ہی منٹ گزرے ہوں گے کہ ٹھیک سوا چار بجے ساحل سے لگا کھڑا تھا۔ ہمارے ورود کا تماشہ دیکھنے کے لیے ادھر ادھر سے بہت لوگ آکے جمع ہو گئے تھے، ان میں ہمیں بہت سےبانکے ترچھے نوجوان نظر آئے جو دور بینیں لگائے اپنی نگاہوں سے رسم خیر مقدم ادا کر رہے تھے، جہاز کے ٹھہرتے ہی ایک بڑا اور لمبا تختہ زمین کی طرف سے پھیر کے جہاز کے کنارے پر رکھ دیا گیا اور ایک پل سا بن گیا جس پر سے مزدور اور دیگر قسم کے لوگ جہاز میں آنے لگے۔ تھوڑی دیر میں جہاز پر ہنگامہ بپا ہو گیا، مزدور چلا چلا کے اٹیلین زبان میں باتیں کرتے ہوئے آتے تھے اور ایک ایک کا اسباب اٹھانے کی کوشش کرتے۔ بہت سے لوگوں کے جانے کے بعد ہمارے اترنے کی بھی باری آئی، ہم اپنا اسباب لے کے سیدھے کسٹم ہوس میں گئے، سب صندوق کھولے گئے اور سارا اسباب خوب اچھی طرح الٹ پلٹ کے دیکھ لیا جا چکا تو ایک بڑی سی گاڑی میں بیٹھ کے ہم نے اسٹیشن کی راہ لی۔ اسٹیشن دور پر ہے اور قریب قریب سارے شہر میں گزر کے وہاں تک پہنچتے ہیں۔

برنڈزی ایک چھوٹا سا شہر ہے اور نہایت میلا کچیلا مقام ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے ایک بہت چھوٹا سا گاؤں تھا، جب سے جہازوں کی آمد و رفت شروع ہوئی یکایک ترقی کر گیا، مگر صرف محنت مزدوری کرنے والے اور عام قسم کے لوگ آکے آباد ہو گئے ہیں۔ راستے ہی میں ہمیں ایک میدان یا احاطہ سا نظر آیا، جہاں صدہا مزدور اور عوام الناس جمع تھے۔ یہ لوگ شرابیں پی رہے تھے، جرٹ کا دھواں ہر طرف چھایا ہوا تھا۔ یہ سب مزدور اگرچہ میلے اور پھٹے پرانے کپڑے پہنے تھے مگر آزادی ہی نہیں، خوفناک خود سری کا نشہ سب کے دماغ میں نظر آتا تھا۔ ہم اور ہمارے ہم سفر انگریز سب کا شمار یہاں آفاقی سیاحوں میں تھا۔ ان مزدوروں نے ہمیں عجیب عجیب قسم کی مختلف نگاہوں سے دیکھا اور ہمیں دیکھ کے بھیانک چہرے بنا لیے اور بعضوں نے منہ چڑھا دیا۔

ہمارے ہم وطن تمام عیسائیوں کو انگریزوں ہی پر قیاس کرتے ہیں۔ بعض مسلمان خیال کرتے ہیں اور کبھی کبھی اہل ہند کو دھوکا دینے کے لیے مشنری پادری بھی کہہ دیا کرتے ہیں کہ جیسی ضعیف الاعتقادیاں مسلمانوں میں ہیں اور جس قسم کی قبر پرستی اور تبرکات پرستی کا رواج جہلائے اہل اسلام میں ہے، عیسائیوں میں نہیں، مگر برنڈزی میں پہنچ کے ہمیں معلوم ہوا کہ عیسائیوں کے مہذب لوگ بھی اس بارۂ خاص میں اتنے بڑھے ہوئے ہیں کہ ہمارے جہلا سے کہیں زیادہ تجاوز کر گئے ہیں۔ اس شہر میں اور تمام اٹلی میں عموما ضعیف الاعتقادی انتہا سے زیادہ بڑھی ہوئی ہے، جگہ جگہ پر ایسے مقامات ملتے ہیں جن کی نسبت کبھی تو یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں کسی نے مریم صدیقہ یا کسی اور سینٹ کو خواب میں دیکھا تھا، کہیں بتایا جاتا ہے کہ یہاں کسی ولی کا کوئی معجزہ نظر آگیا تھا۔ قدم قدم پر ایسی زیارت گاہیں اور ضعیف الاعتقادی کی یادگاریں نظر آتی ہیں اور آج تک بتا رہی ہیں کہ جناب سرورکائنات بستر مرگ پر لیٹنے کی حالت میں بھی کیوں باربار یہ ارشاد فرماتے تھے کہ “لعن اللہ الیھود والنصاری، اتخذوا قبور أنبیائھم مساجد”۔ ہمارے ہندوستان کے مسلمانوں نے دراصل اصلی اور حقیقی عیسائیوں کو آج تک دیکھا ہی نہیں اور جن عیسائیوں کو دیکھا ہے وہ سینٹ پال کے اصلی معتقد نہیں بلکہ لوتھر کے مرید اور نیچری عیسائی ہیں۔

اس مقام پر میں بد اخلاقوں کی بدتمیزیوں کا تذکرہ چھوڑے دیتا ہوں جو انسان کو عیسائی دنیا کے ہر نامی شہر میں نظر آیا کرتی ہیں، مگر اتنا بتا دینا چاہیے کہ برنڈزی بمقابلہ دیگر بلاد کے نہایت ہی مفلس شہر معلوم ہوتا ہے، دولت مندوں اور خوش پوشاک لوگوں کی بہت کم صورتیں نظر آتی ہیں، عموماً وہی لوگ ہوتے ہیں جو محنت و مزدوری پر زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہیں پہنچ کے ہمیں پہلے پہل یہ معلوم ہوا کہ چرٹ اور سگریٹ کس قدر قیمتی چیزیں ہیں اور یہی پہلا شہر تھا جو ہمیں فقیروں اور بھیک مانگنے والوں سے خالی نظر آیا، اس لیے کہ دریوزہ گری اور ہرکس وناکس کے آگے ہاتھ پھیلانے کی یہاں ممانعت ہے۔ اکثر غریبوں اور چھوٹے چھوٹے مفلس لوگوں نے گداگری کا یہ طریقہ اختیار کرلیا ہے کہ دیا سلائی کی ڈبیاں ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور بیچنے کے نام سے مانگتے ہیں، لیکن میں اتنا کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ روپیہ پیسہ مانگنے والے چاہے نہ نظر آئیں مگر سگریٹ اور چُرٹ مانگنے والے قدم قدم پر ملتے ہیں، آپ کو راستہ میں اور اسٹیشنوں پر ہر جگہ ایسے صدہا آدمی ملیں گے جو آپ کو چُرٹ جیب سے نکالتے دیکھ کے پاس آ کھڑے ہوتے ہیں یا ایک دیا سلائی روشن کرکے دوڑتے ہیں کہ لیجیے چُرٹ سلگائیے۔ ان سب لوگوں کو آپ سمجھ لیجیے کہ تمباکو کے فقیرہیں اور اگر آپ ان کی اس ابتدائی حالت کو دیکھ کے نہ سمجھے تو یہ تھوڑی دیرمیں خود ہاتھ پھیلا کے بتادیں گے۔ اسٹیشن پر پہنچتے پہنچتے ہمیں ایسے چار آدمیوں سے سابقہ پڑا اور ہمیں افسوس ہے کہ ہم سب کی خواہش نہیں پوری کر سکے۔

مغرب کے وقت ٹکٹ لے کے ہم سونے کی گاڑیوں میں سوار ہوئے اور ٹرین روانہ ہوئی۔ یہ ٹرین سیدھی پیرس ہوتی ہوئی فرانس کی بندرگاہ کیلے کو جاتی ہے اور دو دن میں لندن پہنچا دیتی ہے، مگر ہم اس پر صرف رات بھر کے لیے سوار ہوئے ہیں؛ اس لیے کہ ہمیں سوئیٹزرلینڈ ہوتے ہوئے اور کوہستان آلپس کی سیر کرنے جانا ہے۔ شام کو ٦ بجے ٹرین روانہ ہوئی اور ہمیں اٹلی کے سواد دیکھنے کا ایسا شوق کہ گوآج دن کو تھک گئے ہیں مگر لیٹنے کو جی نہیں چاہتا۔ کھڑکی کے پاس بیٹھے سیر دیکھ رہے ہیں، خوش قسمتی سے چاندنی رات ہے اور نہایت ہی نکھری اور اجلی چاندنی ہے۔ سفید سفید اٹلی کی عمارات جوزیادہ تر ہمارے مذاق کی ہیں، اس وقت پر فضا میدانوں کی گود میں نہایت ہی خوشنما معلوم ہوتی ہیں۔ سردی زیادہ بڑھ گئی اور بڑھتی جاتی ہے، آخر ہوا میں زیادہ خنکی پیدا ہو گئی اور ہم گاڑی کی کھڑکی بند کرکے بچھونے پر لیٹ رہے۔

صبح کو نہا دھو کے اور ناشتہ کرکے جب ہم پھر کھڑکی کے پاس آکے بیٹھے ہیں، اس وقت ہمیں زیادہ اطمینان سے اٹلی کے سوادکے اندازہ کرنے اور کھیتوں وغیرہ کے دیکھنے کا موقع ملا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ شہروں کے باہر اور دیہات اور کھیتوں کی خوبصورتی و آراستگی کے اعتبار سے اٹلی کا ملک ساری دنیا سے زیادہ خوش قسمت اور تمام دنیا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ انگلستان اورفرانس کے کھیتوں کو بھی اٹلی کے کھیتوں سے وہی نسبت ہے جو جنگل کو باغ سے ہوتی ہے۔ تمام کھیت مربع قطعات میں تقسیم ہیں اور حدود پر مینڈوں کی جگہ سایہ دار درختوں کی قطاریں چلی گئی ہیں اور درختوں میں انگور کی بیلیں جھالر کی طرح ہر طرف جہاں تک نظر جاتی ہے ہرے ہرے ہلال بناتی چلی گئی ہیں۔ سارے ملک اور تمام کھیتوں کی قریب قریب یہی حالت ہے اور جس طرف نظر اٹھا کے دیکھیے یہی مربع قطعات اور ان کے گرد درختوں کی متوازی صفیں اور ان میں انگور کی جھالریں دکھائی دیتی ہیں۔ کھیتوں اور صحراؤں میں تر و تازگی اور نزہت تو فرانس و انگلینڈ میں بھی اچھی طرح پیدا کرلی گئی ہے، مگر یہ خوشنما ئی اور لطف کہیں نہیں۔

اٹلی کو صرف اسی بات میں ترجیح نہیں، یہاں کا حسن وجمال بھی یورپ کے دیگر مقامات سے بڑھا ہوا ہے۔ مردوں کا لباس تو قریب قریب سارے یورپ میں ایک ہو گیا ہے، مگر عورتوں کی وضع میں کسی قدر فرق ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اٹلی کی عورتوں کا لباس انگلستان سے زیادہ بانکا اور دلفریب ہے، وہاں کی ہر چیز میں ایک مشرقیت کی بوہے، وہ حسن و جمال اور وہ ناز و ادا جسے مشرقی آنکھیں ڈھونڈتی ہیں، ان کا پتہ اٹلی میں ہرجگہ اور ہر چیز سے لگ سکتا ہے۔ عورتیں اپنے گورےچہروں پر بالوں کو لٹکا کے جس خوبصورتی سے موڑتی ہیں، وہ بات انگلستان میں نہیں۔ ان کے چہروں کا گورا پن بھی بے مزہ نہیں اور نقشے بالکل ہندوستانی وضع و مذاق کے ہیں۔

صبح کو آٹھ بجے گاڑی بولونیا میں پہنچی، یہ اٹلی کا ایک مشہور جنکشن اور بڑا شہر ہے۔ ہم نے یہاں گاڑی چھوڑ دی اور دوسری ٹرین کے انتظار میں تین گھنٹہ تک اسٹیشن پر ٹھہرے رہے۔ گاڑی بدلنے کی یہ ضرورت تھی کہ جس ٹرین پر ہم برنڈزی سے روانہ ہوئے،وہ انگلستان جانے والوں کو سیدھے راستہ لے جاتی ہے اور ہمیں سوئیٹزرلینڈ کی سیر کی غرض سے آلپس کی گھاٹیوں میں دن کو گزارنا تھا۔ بولونیا کے اسٹیشن پر ہمارے تین گھنٹہ عجب لطف سے گزرے، برابر لوگ آتے تھے اور ہمارے قریب ہی ویٹنگ روم میں بیٹھ کے ٹرینوں پر سوار ہوتے تھے، مگر افسوس یہ کہ انگریزی بولنے والا کوئی بھی نہ ملا۔ اٹلی والے اپنی زبان کے علاوہ عموماً فرنچ زبان بھی بولتے ہیں، مگر افسوس کہ ہم اور ہمارے ساتھی دونوں زبانوں سے نابلد تھے۔ میرا خیال ہے کہ جب تک انسان خود فرنچ زبان نہ جانتا ہو یا کم سے کم اپنے مذاق کا کوئی فرنچ دا ں ہمراہ نہ ہو، اس وقت تک کسی کو یورپ کی سیر میں کوئی لطف نہیں آسکتا۔

آخر انتظار کا زمانہ گزر گیا، ٹرین آئی اور ہم نے سوار ہوکے شہر ملان کی راہ لی اور اُسی قسم کی سینریاں اور لطف دیکھتے ہوئے ۳ بجے ملان پہنچ گئے۔ ملان میں ہمارا ارادہ ایک شب قیام کرنے کا تھا تاکہ صبح کو سوار ہوکے ایسے وقت سوئٹزرلینڈ کے پہاڑوں میں پہنچیں جبکہ دن ہو اور اچھی طرح سیر ہو سکے۔ ملان کے اسٹیشن کے قریب ہی “ہوٹل ڈی نورڈ” تھا، جس میں جا کے ہم نے اپنا اسباب رکھا اور گاڑی پر سوار ہوکے شہر کی سیر کو روانہ ہوئے۔

ملان اٹلی ہی نہیں، سارے یورپ کے اعلی اور خوش سواد شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بعض لوگوں نے اسے شہر وینس سے عجیب طرح نسبت دی ہے، کہتے ہیں کہ جس طرح وینس اندر اور باہر ہر جگہ سمندر اور پانی سے گھرا ہوا ہے، اسی طرح یہ شہر ہر طرف عمدہ سبزہ زاروں اور جاں فزا مرغزاروں کے جھرمٹ میں ہے۔ اٹلی میں قدامت کی یادگاریں اور تنزل کے نمونہ نمایاں نظر آتے ہیں اور ملان میں موجودہ ترقی کے آثار اور خوش حالی و دولت مندی کے اسباب ہویدا ہیں؛ اور بے شک اس کا ثبوت ہمیں اس دو گھڑی کی سیر میں بھی ہر جگہ اور ہر در و دیوار سے ملتا تھا۔ لوگ خوش حال اور خوش پوشاک ہیں، بیکار اور کاہل آدمیوں کا نام و نشان نہیں۔ زن و مرد کے چہروں سے فارغ البالی اور مشقت پسندی کی بشاشت ایک نور کی طرح چمکتی ہے۔ سڑکیں نہایت صاف ہیں بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ یہاں لندن کی سڑکوں سے بھی زیادہ صفائی کا انتظام ہے۔ گیس کی لالٹینوں کے اوپر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر برقی لیمپ چودھویں رات کے چاند کی طرح نور افشانی کر رہے ہیں۔ سڑکوں پر ہر وقت معمولی گھوڑے کی گاڑیوں کے علاوہ ٹریموے کی گاڑیاں دوڑتی نظر آتی ہیں اور ٹریموے بھی دونوں قسم کی، وہ بھی جن کو گھوڑے کھینچتے ہیں اور وہ بھی جو برقی قوت سےچلتی ہیں۔ ان تمام چیزوں کا مجموعی اثر ایک نئے جانے والے کے دل پر یہ پڑتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے جیسے یہ شہر جادو کا بنا ہوا ہے اور کوئی مافوق العادت چیز سارے کاروبار کو چلا رہی ہے۔

اٹلی کا یہ نامی اور مشہور شہر قریب ایک مدور وضع میں آباد ہے جس کو پہلے ایک دس میل کی ناتمام فصیل اپنے غیر مکمل دائرہ میں لیے ہوئےہے۔ اس فصیل کے برابر ہی برابر درختوں کا ایک حلقہ بھی چاروں طرف پھیلا ہوا ہے، پھر اس فصیل کے اندر ایک دوسرا حلقہ ایک نہر سے بن گیا ہے، جو فصیل کے دائرہ اور مرکز کے عین درمیان میں ہے اور جس نے پانچ میل کے دور میں شہر کو گھیر لینا چاہا ہے۔ شہر کی گنجان اور خاص آبادی نہر کے حلقہ کے اندر ہے اور نہر کے باہر اور فصیل کے اندر بھی مکانات اور آبادی ہے، مگر اس حصے میں زیادہ تر نزہت افزا اور فرحت بخش باغ اور چمن ہیں جو یہاں کے عشرت پسند امرا اورجفاکش اہل شہر کے لیے بہت کچھ سامان لطف پیش کرتے ہیں۔

ہم گاڑی پر سوار ہو کے شہر کی آبادی، مصفا سڑکوں اور خوبصورت دکانوں کو دیکھتے ہوئے یہاں کے کیتھڈرل یعنی بڑے کنیسہ میں پہنچے جو خاص شہر روما کے بڑے گرجے کے بعد سارے یورپ کے گرجوں سے اول درجہ کا خیال کیا جاتا ہے، مگر افسوس کہ شام ہو جانے کی وجہ سے اندر جا کے اچھی طرح نہ دیکھ سکے۔ یہ گاتھک وضع کی عالیشان اور بے مثل عمارت اپنی قدامت کی شان سے شہر کے عین مرکز پر ایک مربع وضع میں کھڑی ہوئی ہے اور پوری سنگ مرمر سے بنی ہے۔ تقریباً پانچ سو سال پیشتر 1385؁ء میں جان گلیاز و پہلے ڈیوک ملان نے اس کو تعمیر کرانا شروع کیا تھا، مگر بنیاد اتنے بڑے اندازہ پر ڈالی گئی تھی کہ جان گلیازو کی زندگی کا وفا کرنا در کنار آج تک تکمیل نہ ہوسکی، نتیجہ یہ ہوا کہ مختلف عہدوں، مختلف مذاق کے کاریگروں کا ہاتھ لگا، جس کی وجہ سے یہ عمارت آج ہر قسم اور ہر مذاق کی عمارتوں کا مجموعہ نظر آتی ہے اور یہ بات پیدا ہوگئی ہے کہ گاتھک دروازہ اور ردکار میں یونانی وضع کی کھڑکیاں لگی ہوئی ہیں۔ پوری عمارت ایک لاطینی صلیب کی وضع میں نظر آتی ہے جس کا طول 493 فٹ، عرض 177فٹ، اور بلندی ٢83 فٹ ہے۔ اس گرجے میں ٥٢ محراب دار ستون، 98 برج اورکلس ہیں اور اندر باہر سب ملا کے 4400 پتھر کی ترشی ہوئی مورتیں نصب ہیں۔ ابھرے ہوئے کام کھدائی اور خوشنما سنگین مورتوں کے اعتبار سے یہ گرجا دنیا کے تمام گرجوں سے بڑھا ہوا ہے ؛ حتی کہ خود روما کے گرجے سینٹ پیٹرس کی بھی کوئی ہستی نہیں جو بہ لحاظ عمارت کے اس سے عمدہ خیال کیا جاتا ہے۔ اس کے اندر بنا ہوا دو ہرا راستہ، اس کے ستونوں کی مجموعی خوشنمائی، اس کی بلند محرابیں، اس کی سفید دیواروں کی چمک اور آب و تاب اور چاروں طرف کے بے شمار طاق جن پر ہزارہا سنگ مرمر کی ترشی ہوئی مورتیں رکھی ہیں، دیکھنے والوں کی آنکھوں کے سامنے ایک ایسا سماں پیدا کر دیتے ہیں کہ انسان تمام عمارتوں کو بھول جاتا ہے اور اسی قسم کا سماں دکھانے کی اس کی تعمیر میں بھی کوشش کی گئی ہے۔ اس لیے کہ ستون اگرچہ 90 فٹ اونچی چھت کو اٹھائے ہوئے ہیں مگر 8 فٹ کے دور سے زیادہ موٹے نہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ تمام ستون کسی چیز کے دیکھنے میں بہت کم حاجب ہوتے ہیں اور اندر کی پوری فضا ہر طرف سے صاف اور کھلی نظر آتی ہے۔ چھت پر گنبد کے عین درمیان میں جناب مریم کی مورت نصب ہے اور ان ہی کے نام پر یہ گرجا نذر کر دیا گیا ہے۔ پیچھے تہ خانے میں ایک زیارت گاہ ہے جس میں سینٹ چارلس بورومیو دفن ہے۔چارلس بورومیو سولھویں صدی میں ملان کا آرچ بشپ یعنی بڑا پادری تھا، مرنے کے بعد ولیوں میں شمار کیا گیا اور آج تک اس کی قبر کی پرستش ہوتی ہے،اس سے منت مرادیں مانگی جاتی ہیں اور دور دور سے لوگ زیارت کو آتے ہیں۔

بہت لوگوں کا خیال ہے کہ اس کنیسہ میں مورتیں ضرورت سے زیادہ ہیں اور اتنی ہیں کہ اگر ہزار دو ہزار نکال ڈالی جائیں تو رونق گھٹنے کی جگہ اور بڑھ جائے گی، مگر کیتھولک تصویر پرستی ایسا خوش نصیب دن نہیں آنے دیتی کہ اس گرجا کو یہ سادگی کا زیور نصیب ہو اور وجہ یہ کہ بڑے بڑے بتوں کے علاوہ جن کا شمار ہزار کے اوپر بتایا گیا ہے، در و دیوار اور طاقوں پر ہزارہا بےشمار مورتیں رکھی ہوئی ہیں، جنھوں نے زیبائش میں بہت کچھ بھدا پن پیدا کر دیا ہے۔