شرر کے سفرنامے/ہمارا سفر پالن پور

ہمارا سفر پالن پور


ایک مدت سے ہمیں اپنے مکرم دوست سید گلاب حسین میاں صاحب مصنف “تاریخ پالن پور” سے ملنے کا شوق تھا، اکثر قصد کیا مگر نوبت نہ آئی۔ اب کی ماہ ذیحجہ کے اوائل میں انھوں نے کچھ ایسے ذوق و شوق کی تحریر اور تاکیدی الفاظ سے ہمیں بلایا کہ انکار کرتے نہ بنی اور جانا ہی پڑا۔

سب سے زیادہ شوق ہمیں اُس چھوٹے اسلامی دربار کے دیکھنے کا تھا جسے ہمارے مکرم گلاب میاں صاحب نے اپنی تاریخ میں بتایا ہے کہ 586 برس سے مارواڑ اور گجرات کےدرمیانی حدود پر واقع ہے اور اپنی تاریخی قدامت میں تمام موجودہ ریاستوں سے پرانااور ہندوستان میں مغل امپائر سے بھی پہلی فتوحات اسلام کی یادگار ہے۔

غرض اسی ذوق و شوق کا اثر تھا کہ ہم جو لکھنؤ کے ایک محلے سے دوسرے محلے میں بمشکل جاتے ہیں، 4؍ اکتوبر 1916؁ء(۵؍ذیحجہ ۱۳۳۳؁ھ) کو برخوردار محمد صدیق حسن سلمہ کو اپنے ساتھ لے کے چل کھڑے ہوئے اور 7 ذیحجہ کی صبح کو پالن پور کے اسٹیشن پر تھے۔ گلاب میاں صاحب اور ان کے رشتے کے ایک عزیز بھائی شبیر میاں صاحب اسٹیشن پر موجود تھے، وہ محبت بھری صورتیں دیکھیں جن کے لطف سے تو مدت سے بہرہ یاب ہوتے رہے تھے، مگر ان کا دیدار آج نصیب ہوا۔ اپنے کرم فرما کی عنایت سے ہمیں ریاست کی مہمانی کی عزت دی گئی اور باغ دلکشا کے چھوٹے بنگلے میں ٹھہرائے گئے جس کی پشت پر شہر پناہ ہے، تین طرف ایک نزہت بخش باغ ہے اور بائیں جانب چند قدم پر ایک باؤلی پر رہٹ چلتا رہتا ہے، جو ہر وقت اپنی گردش سے انقلاب عالم کا اور باغ کی آبیاری سے والی تک کی دریا دلی و رعایا پروری کا ثبوت دیتا رہتا ہے۔

گلاب میاں صاحب پہلے تو میر منشی ریاست تھے، مگر فی الحال میر عمارت ہیں اور چونکہ رئیس دولت ہزہائینس دیوان شیر محمد خاں بہادر جی۔ سی۔ آئی۔ ای کے سب سےبڑےمعتمد علیہ ہیں، اس لیے انھیں بہت ہی کم فرصت رہتی ہے۔ تاہم دو تین گھنٹے ہمارے پاس ٹھہرے اور پھر معذرت خواہ ہو کے شبیر میاں صاحب کو ہمارے پاس چھوڑ کے چلے گئے، جنھوں نے پورے زمانۂ قیام میں بڑے لطف و محبت کے ساتھ ہماری رفاقت کی۔

اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس ریاست کے مختصر حالات ہم اپنے ناظرین کی خدمت میں بیان کردیں تاکہ انھیں معلوم ہو سکے کہ یہ ریاست ہندوستان کی تاریخ اسلام کا کتناپرانا، اہم اور قابل قدر ورق ہے۔ اس قدیم اسلامی دربار کی بنیاد سلطان محمد تغلق کی وفات کے سال یعنی 795؁ھ میں پڑی، جبکہ پٹھانوں کے ایک سرغنہ ملک خرم نےاس علاقہ کو ہندو راجپوتوں سے فتح کرکے اپنے قبضے میں کرلیا اور دو سال بعد دولت تغلقیۂ دہلی کے صوبہ دار گجرات سے مسند نشینی کی سند بھی حاصل کر لی۔ تھوڑے ہی دنوں کے بعد مسلمان ملوک گجرات کا دور شروع ہوا اور یہ دربار جس کا دار الریاست اُن دنوں شہر جالور تھا،اسی سے وابستہ ہوگیا۔

اس خاندان کے پانچویں مسند نشین دیوان عثمان خاں کے عہد میں سید محمد صاحب جونپوری نے دعوائے مہدیت کیا،جن کی طرف وسط ہند اور دکن کا فرقۂ مہدویہ منسوب ہے۔ سید صاحب ممدوح اپنی سیر میں اس ریاست کی قلمرو میں بھی تشریف لائے اور دیوان عثمان خاں نے غالباً 888؁ھ میں ان کو مہدی موعود تسلیم کرکے ان کی پیروی اختیار کرلی۔ اس وقت سے آج تک اس ریاست کے مسند نشینوں کا مذہب “مہدوی” ہے جو سِوا دو ایک باتوں کے جملہ امور میں میں فقہ حنفیہ پر عمل کرتے ہیں۔ سید محمد جونپوری کو مہدی موعود ماننا جزوایمان جانتے ہیں اور زیادہ تر ان کا رجحان تصوف اور روحانی ترقیوں اور باطنی تعلیموں کی طرف ہے۔

نویں مسند نشینِ ریاست ملک سکندر خاں کےعہد یعنی 938 ؁ھ میں وزیر ریاست کے فرزند ملک خاں بن ہیتم خاں نے بزور شمشیر مسند ریاست پر قبضہ کرلیا۔ ملک خاں بھی اسی گروہ افاغنہ میں سے تھے اگرچہ ملک خرم خاں کی نسل سے نہ تھے۔ لہذا اس عہد سے حکمرانوں کی قوم تو وہی رہی مگر خاندان امارت بدل گیا۔ ملک خاں کے عہد میں گجرات کا فرماں روا سلطان بہادر شاہ تھا۔ گجرات کی اسلامی سلطنت سے یہ ریاست پونے دو برس تک وابستہ رہی تھی کہ اُس دولت کا خاتمہ ہوگیا۔ 998؁ھ میں شہنشاہ اکبر نے جو پورے گجرات کا مالک ہو گیا تھا ، اس خاندان کے مسند نشین غزنی خاں کو اپنی طرف سے خلعت عطا کرکے رئیس ریاست تسلیم کر لیا، جو اس ریاست کے بارھویں مسلمان رئیس تھے۔

اب اس ریاست اور دربار مغلیہ میں بہت اچھے تعلقات تھے اور یہاں کے رئیس دولت چغتائیہ کے بڑے بڑے اہم خدمات بجا لائے۔ چودھویں مسند نشین فیروز خاں اول عرف کمال خاں نے جالور کو چھوڑ کے موجودہ شہر پالن پور کو اپنا دار الریاست قرار دیا اور اسی وقت سے پالن پور کا زمانہ شروع ہوا، یہ 1045؁ھ کا واقعہ ہے۔

چھبیسویں مسند نشینِ ریاست فتح محمد خاں کے زمانے میں باہمی جھگڑے پیدا ہوئے، جن کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کوبغرض رفع شر دخل دینا پڑا اور کمپنی کی جانب سے کیپٹن مائلس نے بڑی خوں ریز یوں کے بعد فتح محمد خاں کو مدد دی اور انھیں مستقل فرماں رواں بنایا اور وہی پہلے انگریزی پولٹیکل سپرنٹنڈنٹ پالن پور مقرر ہوئے۔ 1270؁ھ میں فتح محمد خاں نے انتقال کیا تو دیوان زورآور خاں مسند نشین ہوئے۔ 18؍ شعبان 1294؁ھ کو انھوں نے بھی سفرآخرت اختیار کیا اور ان کے جانشین موجودہ رئیس زبدۃ الملک دیوان نواب سر شیر محمد خاں بہادر جی۔ سی۔ آئی۔ ای ہوئے۔

نواب صاحب ممدوح 1269؁ھ میں پیدا ہوئے تھے۔ 26 سال کی عمر میں عنان ریاست ہاتھ میں لی، اِس وقت سِن شریف 66 سال کا ہے اور اس قدیم اسلامی ریاست کے اٹھائیسویں فرماں روا ہیں۔

اس ریاست کی یہ خصائص تاریخی حیثیت سے نہایت ہی قابل قدر ہیں کہ اس نے ہندوستان کے چار مختلف دوروں کو نہایت ہی خوش اسلوبی سے اپنے موافق بنا لیا۔ پہلے دہلی کے خاندان تغلق و لودھی کو، پھر احمد آباد کی اسلامی دولت گجرات کو، اس کے بعد دولت مغلیہ دہلی کو اور سب کے آخر میں دولت برطانیہ انگریزی کو، اور اس سے بھی زیادہ قابل حیرت و قدر یہ ہے کہ مرہٹوں سے اس قدر قریب ہونے پر بھی یہ ریاست ان پہاڑی لٹیروں کی دست برد سے ہمیشہ محفوظ رہی۔

اس خاندان کی فرماں روائی کی تاریخ سے ایک اور بہت ہی نئی بات کا انکشاف ہوتا ہے جو مورخین ہند کے لیے انتہا سے زیادہ قابل غور و لحاظ ہے۔ دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ ہندو مسلمانوں کو ملا کے ایک قوم بنا دینے اور یکساں کر دینے کے لیے ان دونوں قوموں میں باہمی شادی بیاہ کے رواج دینے کا سہرا شہنشاہ اکبر کے سر ہے، مگررؤسائے پالن پور کی تاریخ بتا رہی ہے کہ دولت مغلیہ سے پہلے ہی یہاں کے رئیسوں نے ایسے نکاحوں کی بنیاد ڈال دی تھی؛ کیونکہ دولت مغلیہ سے پہلے ہی معزز ہندو خاندانوں کی لڑکیاں اس ریاست کی رانیاں ہوا کرتی تھیں۔ چنانچہ ملک خاں نے جو 961؁ھ میں مسند نشین ہوئے تھے، ارجن سنگھ بھیجاوت کی بیٹی امران بائی سے شادی کی جس کے بطن سے ولی عہد ریاست ملک غزنی پیدا ہوئے، اکبر کی تخت نشینی اس کے تین سال بعد 964؁ھ میں ہوئی،جس کے مدت دراز بعد اس نے ہندو رانیاں اپنے محل کے لیے حاصل کیں اور لطف یہ کہ سلطنت مغلیہ میں یہ طریقہ آخر تک نہ نبھ سکا تھا، مگر رؤسائے پالن پور کے محل میں آج تک جاری ہے اور موجودہ رئیس کی والدۂ محترمہ بھی ایک شریف گھرانے کی ہندو راج کنواری تھیں اور چاہے ہندو لوگ اس طریقے کو چھوڑ دیں، مگر ریاست پالن پور اور اس کے تمام معزز امرا آج تک اس اتفاق و یک جہتی کی رسم کے زندہ رکھنے کو موجود ہیں اور شاید ہندو مسلمانوں میں یہاں اس قدرمیل جول ہونے کا بھی یہ سبب ہے کہ رؤسائے پالن پور کے یہاں بمقابل دیگرمقامات کےمسلمان رئیسوں کے ہندو رسموں اور ہندو معاشرت کا اثر زیادہ نظر آتا ہے۔

جس سرزمین میں یہ ریاست واقع ہوئی ہےبہت پرلطف ہے، مناظر قدرت کا اچھا نظارہ ہوتا ہے۔ مغرب جانب شہر سے دس بارہ میل ہٹ کے کوہسار آراولی کا سلسلہ گزرا ہے، چوٹیاں ابر و باد کے زمانے میں اکثر بدلیوں کا ہار پہنے نظر آتی ہیں۔ اسی سلسلے کی بلندی پر آبو کی آبادی نظر آتی ہے اور آبو کے جس جنوبی و مشرقی پہلو سے پالن پور نظر آتا ہے،وہ پالن پور پوائنٹ کہلاتا ہے۔

اب ہم اپنے قیام پالن پور کا تذکرہ شروع کرتے ہیں۔ ہزہائینس کی منظوری اور گلاب میاں صاحب کی تجویز سے یہ پروگرام مقرر ہوا تھا کہ ہم دوسرے دن ہزہائینس اور ان کے بلند اقبال فرزندوں سے ملیں گے، مگر ہماری بدقسمتی سے اسی شب کو محل میں ایک غمی کا سانحہ ہوگیا، وہ یہ کہ ولی عہد بہادر کے سالے کی انیسۂ زندگی بیوی جو ایک مدت سے دق میں مبتلا تھیں سفرآخرت کر گئیں، خاندان ریاست میں سوگ ایک معتد بہ زمانہ تک مانا جاتا ہے،لیکن اس موقع پر عید الاضحی کی تقریب سر پر آچکی تھی اور سب سے زیادہ دشواری یہ کہ مرشد علی پیر اور قاضی انور میاں کے عرس درپیش تھے، جن بزرگوں سے ہزہائینس اور تمام اہل پالن پور کو بڑی عقیدت ہے اور ان کے عرس کو ہزہائینس کی توجہ سے نوابزادہ طالع محمد خاں صاحب ولی عہد ریاست خاص اہتمام سے انصرام فرماتے ہیں ؛ چنانچہ یہ عرس اب ایک نہایت ہی بارونق نمائش گاہ بنا دیا گیا ہے، جو ہر سال دسہرے کے موقع پر ہوتا ہے اور دسہرا جس قمری مہینے میں پڑے اس کی ٧؍ تاریخ سے شروع ہو کے 17؍ تک یعنی دس روز تک قائم رہتا ہے۔ اس میلے کا اہتمام گلاب میاں کے سپرد ہے ؛ چنانچہ ان کی کوشش سے احمد آباد گجرات اور دیگر بلاد دور دراز کے تاجر اور دو کاندار آئے ہوئے تھے اور شہر پناہ کے باہر درگاہ کے آس پاس نہایت صفائی، خوشنمائی اور قرینے سے ایک ایسا ستھرا اور بارونق بازار قائم ہو گیا تھا جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ بہرحال بقرعید اور اس میلے اور عرس کی وجہ سے سوگ صرف محل کے زنانے حصے تک محدود رکھا گیا اور دربار کی بیرونی شان میں کوئی فرق نہیں آیا، لیکن جنازے کے ساتھ خود حضور اور صاحبزادے اور اراکین دولت قبرستان تک تشریف لے گئے ؛ چنانچہ دن بھر ان عبرتناک مشاغل میں مصروف رہنے کی وجہ سے ہزہائینس کو کسی اور کام کے لیے فرصت نہ ملی اور گلاب میاں صاحب کو جو ہجوم کار سے پہلے ہی خستہ ہو رہے تھے حرارت آگئی۔

یہ خاص دسہرے کا روز تھا،جس دن ہر سال حضور کی سواری پورے اہتمام اور شان و شوکت سے نکلا کرتی ہے۔ ہندو رعایا کی دل دہی کے لیے اور دونوں گروہوں میں اتحاد و ارتباط کے قائم رہنے کے لیے قدیم سے معمول چلا آتا ہے کہ جس طرح عیدین کو ہزہائینس سوار ہو کے عیدگاہ تشریف لے جاتے ہیں، اسی طرح دسہرے کو بھی پورے جلوس سے شہر میں برآمد ہو کے ہندو رعایا کی مسرت دوبالا فرماتے ہیں، مگر افسوس کہ اس سال اس سانحے کی وجہ سے یہ جلوس نہ نکل سکا اور ہندوؤں کی تمنا نہ برآئی۔

عام رعایا کے ساتھ رئیس کا اخلاق اور برتاؤ ایسا اچھا ہے کہ ہر شخص جان نثار کرنے کو تیار رہا کرتا ہے،ہزہائینس ہر ادنی شخص کی طرف بھی بہ نفس نفیس متوجہ ہو کے اس کی فریاد سنتے اور جہاں تک امکان میں ہوتا ہے چارہ جوئی فرماتے ہیں۔ اپنے سفر کے باقی حالات ہم آئندہ نمبر میں عرض کریں گے۔

٩ ذیحجہ 1333؁ھ کی صبح کو ہمیں حضور نواب صاحب کی خدمت میں باریاب ہونے کا موقع ملا، گلاب میاں صاحب باوجود ناسازی طبع کے تشریف لائےاور مجھے اور صدیق سلمہ کو اپنے ہمراہ ایوان ریاست میں لے گئے۔ دربار کا ہال نہایت ہی پرتکلف سامان زینت سے آراستہ تھا، صدر میں مسند یا کرسی کے عوض ایک پر تکلف اطلس کا کوچ تھا جو ہنڈو لے کی وضع سے دو چوبی ستونوں میں لٹکا ہوا تھا اور جھولے کی طرح جھلایا جا سکتا تھا۔ ا س ہنڈولے کے دونوں جانب دو طلاکار کرسیاں رکھی ہوئی تھیں، اس کے سامنے بیش قیمت ترکی قالینوں پر داہنی بائیں جانب چھ چھ کرسیوں کی آڑی آڑی دو صفیں تھیں۔ بائیں صف کی کرسیوں پر گلاب میاں صاحب اور دو تین اور معززین دربار بیٹھ گئے اور داہنی جانب کی کرسیوں پر ہم دونوں امیدواران باریابی بٹھائے گئے۔ تھوڑی ہی دیر بیٹھے تھے کہ نواب صاحب مع دونوں صاحبزادوں کے برآمد ہوئے، ہم سب کا سلام لیا اور خود حضور اس جھولنے والے کوچ پر اور دونوں صاحبزادے اس کے پہلو کی دونوں کرسیوں پر رونق افروز ہو گئے۔ نواب زادہ طالع محمد خاں بہادر ولی عہد ریاست چونکہ اپنے مسند نشین والد بزرگوار کی داہنی جانب تھے، اس لیے ہم سے زیادہ قریب تھے۔

ہم نے حصول باریابی کی خوشی میں بڑھ کے نذر دکھائیاور اپنی چند کتابیں جن کو ساتھ لیتے گئے تھے پہلے حضورنواب صاحب کے ملاحظے میں پھر ولی عہد بہادر کی خدمت میں پیش کیں جو شگفتگی و مسرت کے ساتھ قبول کی گئیں۔ نواب صاحب نہایت ہی معمر و سن رسیدہ اور ہر طرح واجب الاحترام ہیں اور ان خوبیوں کے ساتھ اس قدر خلیق و متواضع کہ ان کی شفقت و مرحمت کا اثر ہر ملنے والا اپنے دل میں ایک جذبۂ مسرت و ناز کی شان سے لے جاتا ہے اور کبھی نہیں بھولتا۔ حضور کے اخلاق پیرانہ سالی کے ضعف پر غالب آ کے ہر شخص محتشم الیہ کو گرویدہ بنا لیتے ہیں۔ اور بڑی خوشی کی یہ بات ہے کہ ولی عہد بہادر کو بھی یہ تمام اخلاق اپنے والد محترم کے ورثے میں ملے ہیں۔ انھوں نے حسب مذاق زمانہ انگریزی تعلیم پرائیوٹ اساتذہ سے پائی ہے، حد سے زیادہ خلیق و متواضع اور ملنسار ہونے کے ساتھ ہر شخص کے حال پر نہایت ہی شفیق و مہربان ہیں، انگریزی اور اردو دونوں زبانیں بہت ہی اچھی اور صاف بولتے ہیں اور کاروبار ریاست میں اس قدر دلچسپی لیتے ہیں کہ ان پر بھروسا کرکے کل کاروبار ریاست انھیں کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے اور وہ نہایت ہی محنت و خوش اسلوبی سے کل محکموں کے کاموں کو انجام دے رہے ہیں۔ اس امر پر حضور نواب صاحب کے سامنے میں نے اپنی مسرت ظاہر کی کہ اکثر ریاستوں میں ولی عہدوں اور رئیسوں کے فی مابین صفائی نہیں، جس کا باعث کہیں تو ولی عہدوں کی آزادانہ خود سری و بے پروائی ہوتی ہے اور کہیں ان کے مصاحبوں کی در اندازی و فتنہ انگیزی۔ الحمد للہ کہ حضور کے فرزند جوان صالح اعلی اخلاق سے متصف اور ایسے ہوشیار ہیں کہ حضور کو ان پر پورا بھروسا اور اعتبار ہے اور یہاں ایسے فتنہ جو مصاحب بھی نہیں جو خلل انداز ہو سکیں۔ پھر میں نے عرض کیا کہ ایسے ہونہار اور نیک فرزند حضور کی اعلی ترین خوش اقبالی ہیں، اس پر نواب صاحب نے بہت مسرت ظاہر کی اور فرمایا کہ مجھے اپنے بیٹوں سے کوئی شکایت نہیں، میں انھیں ہر طرح سعادت مند پاتا ہوں اور ان کی خوبیوں پر مجھے اس قدر بھروسا ہے کہ میں نے انھیں پر سب کام چھوڑ دیے ہیں اور کمال اطمینان کے ساتھ اپنی ضعیفی و فارغ البالی کی زندگی بسر کرتا ہوں۔

اس دوران میں صاحبزادے صاحب سے بھی مختلف امور کا تذکرہ رہا اور انھیں حسب ضرورت زمانہ قابلیت اور واقفیت میں نہایت ہی مکمل پایا۔ چھوٹے صاحب زادے ذرا خاموش ہیں مگر جہاں تک مجھے معلوم ہو سکا وہ بھی بہت قابل اور ہونہار ہیں۔

تقریباً ایک گھنٹہ بھر صحبت رہی، جس کے بعد ہم حضور سے رخصت ہو کے اپنی فرودگاہ میں واپس آئے اور حضور کے حکم سے جس کا وعدہ ہم نے اسی ملاقات میں کرلیا تھا شام کو عرس میں میں گئے، جہاں گلاب میاں صاحب نے اپنی جانب سے ٹی پارٹی دی تھی۔ حضور نواب صاحب مع دونوں فرزندوں کے مجھ سے پہلے ہی رونق افروز ہو چکے تھے، مجھے بھی میز پر حضور کے مقابل عزت دی گئی۔ اس موقع پر بھی نواب صاحب نہایت ہی محبت و اخلاص کے ساتھ باتیں کرتے رہے۔ یہاں مسٹر دہلوی بیرسٹر ایٹ لا سے شرف نیاز حاصل ہوا جو ہندوستان کے منتخب سیاسیین اسلام میں سے ہیں۔ ان کا خاندان تو دہلی کا ہے مگر فی الحال اطراف بمبئی میں وطن ہے اور کئی سال سے ریاست پالن پور کے جوڈیشیل سکریٹری ہیں۔ اعلی ترین عدالتی اقتدارات انہیں کے ہاتھ میں ہیں۔

چائے وغیرہ سے فارغ ہو کے حضور نواب صاحب اٹھ کے اس وسیع مسجد میں تشریف لے گئے جو مرشد علی پیر اور قاضی انور میاں قدس اللہ اسرارہما کے مزاروں کے پاس ہے، دونوں صاحبزادے اور تمام ارکان دولت ہمراہ رکاب تھے جن کے زمرے میں میں بھی تھا۔ حضور کے مسجد میں پہنچتے ہی بعض واعظین نے فضائل محمدی کا بیان شروع کیا۔ اس سلسلے میں مولود شریف ہوا جس کے ختم ہوتے ہی سرکار نواب صاحب نے مجھے واپس آنے کی اجازت عطا فرمائی اور میں اپنی فرودگاہ میں چلا گیا۔

دوسرے دن گلاب میاں صاحب کی طبیعت پھر ناساز ہوگئی، انھیں بخار آگیا اور مجھے ان کے بیمار پڑ جانے سے بڑا تردد ہوا، مگر صاحبزادہ ولی عہد بہادر نے سہ پہر کو اپنی موٹر بھیج کے مجھےبلا بھیجا اور اپنے ساتھ لے جا کے شہر اور اس کے بیرونی حصے کی سیر کرائی جو اسٹیشن اور آبادی کے درمیان میں واقع ہے۔ یہاں صاحبزادے صاحب کی اولوالعزمی نے بہت سی جدید عمارتوں کی بنیاد ڈالی ہے، ایک عالیشان کوٹھی معزز یورپین حکام کے ٹھہرانے کے لیے بن کے نصف کے قریب تیار ہوگئی ہے، جو بعد تکمیل نہایت عالی شان عمارت ہوگی اور اس کے کوٹھے پر سے چاروں طرف نہایت ہی اعلی درجے کا منظر نظر آتا ہے۔ کوہ اراولی کا سلسلہ اپنی پوری شان سے دکھائی دیتا ہے اور اس کی بلندی پر کوہ آبو کی بعض عمارتیں اس جگہ سے دیکھی جا سکتی ہیں۔ اسی عمارت کے قریب ایک شاہی محل تیار ہونے والا ہے، اسی سلسلے میں عالی جناب سرشیر محمد خاں صاحب کے عہد کی ایک یادگار بننے والی ہے جو رعایا میں نہایت ہی ہردلعزیز ہیں۔ خاص اسی غرض کے لیے ہندوستان کی مشہور عمارتوں کے نقشے اور پلین جمع کر لیے گئے ہیں جن میں سے لکھنؤ کے میڈیکل کالج کی عمارتوں کو بہت پسند فرمایا ہے اور یہی وضع جو قدیم یونانی و شاہجہانی عمارتوں کا معجون مرکب ہے، پسند آئی ہے۔

ان تمام عمارتوں کے مقام اور پلینوں کا معائنہ کرا کے صاحبزادے صاحب ہمیں اپنے کلب میں لے آئے، جس کی عمارت ابھی حال میں گلاب میاں صاحب کے اہتمام سے بن کے تیار ہوئی ہے۔ ایک چھوٹی سی نہایت ہی خوبصورت اور شاندار عمارت ہے، اس کلب کو کھلے تھوڑا ہی زمانہ ہوا ہے مگر ہر قسم کے تفریح و ورزش کے سامان اس میں جمع کر دیے گئے ہیں۔ بلیرڈ اور ٹینس اور دوسری قسم کے انڈور سامان تفریح کے علاوہ ہندوستان و یورپ کے اخبارات اور رسالے بھی آتے ہیں۔ دونوں صاحبزادے صاحبان، مسٹر دہلوی اور صاحب پولٹیکل ایجنٹ اور ان کی میم صاحب پابندی کے ساتھ آتے ہیں، جن کی موجودگی سے کلب میں سہ پہر کو ایک بہت اچھی مہذب و شائستہ صحبت قائم ہوجاتی ہے، جو باہمی تبادلہ خیالات اور ترقی اخلاص و محبت کا ذریعہ بن گئی ہے۔ اس کلب میں اس کے بعد بھی میں کئی بار گیا اور نوابزادے صاحب کی عنایت و مرحمت سے بے حد لطف اٹھایا۔

مغرب کے وقت میں اپنی فرودگاہ میں واپس آیا اور آٹھ بجے پھر محل میں ولی عہد بہادر کے قصر میں گیا، اس لیے کہ ممدوح الشان نے مجھے اپنے ساتھ کھانا کھلانے کی عزت دی تھی۔ یہ ڈِنر بہت ہی شاندار اور اپنی قسم کا بالکل نیا تھا۔ ڈنر پر دونوں صاحبزادے، مسٹر دہلوی، برخوردار صدیق حسن اور دیگر معززین دربار ملا کے کل آٹھ آدمی تھے، گلاب میاں صاحب کے نہ شریک ہو سکنے کا سب کو افسوس تھا۔ کھانا لذیذ تھا، مگر بجائے اس کے کہ ہر ہرغذایکے بعد دیگرے لا کے پیش کردی جائے ہر شخص کے سامنے ایک نہایت ہی براق اور صاف پیتل کی تھالی تھیاور اسی میں چھوٹے برنجی ظروف میں انواع و اقسام کے الوان نعمت تھے، مگر کھانوں کی اس قدر کثرت تھی کہ یہ تھالیاں ان کے لیے کافی نہ ہو سکیں اور کئی غذائیں ان کے باہر لگا دی گئیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ طریقہ ہندو معاشرت کا نمونہ ہے، مگر میرے خیال میں ہندو معاشرت کے اندر اسلامی اور مغربی خوبیاں جس طرح اس ڈنر میں جمع کردی گئی تھیں شاید اور کسی ہندو دربار میں نہ نظر آ سکتی ہوں گی۔ بہرحال یہ ڈنر اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہت دلچسپ تھا، کھانے کے بعد بھی کچھ دیر تک صحبت رہی اور اس کے بعد ہم دلکشا کے بنگلے میں واپس آئے۔

زمانہ قیام پالن پور میں وہاں کے اکثر معززین اور صاحب علم حضرات مجھ سے ملنے کو تشریف لائے اور میں ان سے مل کے بہت ہی خوش ہوا۔ بعض علمائے مہدویہ سے بھی گفتگو ہوئی اور میں نے ان کے عقائد اور نظام دینی کے متعلق بہت سی باتیں دریافت کیں۔ مہدوی حضرات حیدرآباد دکن میں بھی کثرت سے ہیں اور ان کے بعض اہل علم احباب سے وہاں مجھے اکثر ملنے اور لطف اٹھانے کا موقع ملا تھا، مگر حیدرآباد دکن میں مولوی محمد زمان صاحب کے واقعۂ شہادت نے عام اہل سنت اور مہدویوں میں تعصب بڑھا دیا ہے، جس کی بنیاد یہ ہوئی کہ نظام مرحوم میر محبوب علی خاں کے استاد مولوی مسیح الزمان خاں صاحب کے بھائی مولوی محمد زمان خاں صاحب نے مہدویوں کی تردید میں ایک کتاب لکھی تھی جس میں سید محمد جونپوری پر جا بجا سخت حملے تھے، مہدوی لوگ چونکہ علی العموم پٹھان اور سپاہی منش ہیں، انھیں نا گوار گزرا اور ایک مہدوی طالب علم نے طیش میں آکے انھیں مار ڈالا، جس پر سخت برہمی ہوئی اور گورنمنٹ نظام کو وہ ہنگامہ بڑی مشکلوں سے فرو کرنا پڑا اور قاتل پر حکم قصاص بڑی مشکل سے جاری ہو سکا۔ اس وقت سے وہاں سنیوں اور مہدویوں میں سخت اختلاف ہو گیا ہے اور دونوں ایک دوسرے کو وحشت و مغائرت کی پرخطر نظر سے دیکھتے ہیں۔ مہدویوں نے بھی وہاں اپنے مذہبی تعلقات بالکل جدا کر لیے ہیں، مسجدیں جدا ہیں، امام و پیشوا جدا ہیں اور مہدویوں کے معابد وہاں عجیب عجیب نامعلوم اسرار سے مملو خیال کیے جاتے ہیں۔

پالن پور میں اس منافرت کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ مہدوی لوگ حنفیوں سے کسی فقہی مسئلے میں مخالف نہیں ہیں، فقہ حنفیہ پر پورا پورا عمل درآمد ہوتا ہے،سوا دو ایک جزئی مسئلوں کے، جیسے کہ امام کے پیچھےسورۂ فاتحہ پڑھنا، جس میں وہ محدثین سلف اور گروہ اہل حدیث کے موافق ہیں، جو کچھ زیادتی ہے وہ یہ ہے کہ سید محمد جونپوری کے ولی کامل اور سچے مہدی موعود ہونے کے قائل ہیں اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ اسلام میں جن “مہدی مِن آل محمد” کے آنے کی پیشین گوئی کی گئی ہے وہ پوری ہو چکی، حضرت سید محمد صاحب وہی مہدی موعود تھے جو ظاہر ہوکے اپنا کام پورا کر چکے اور اب کسی مہدی کا انتظار کرنا بے سود ہے۔ مہدویوں کا صرف ایک مسئلہ ہمیں اچھا نہیں معلوم ہوا، وہ یہ کہ ان کا اعتقاد ہے کہ جو شخص حضرت سید محمد صاحب کی مہدیت پر ایمان نہ رکھتا ہواس کے پیچھے فرض نمازیں نہیں ہو سکتیں،ہاں وہ نمازیں جو مسنون ہیں ادا ہو جاتی ہیں۔ پالن پور کے مہدوی جمعہ اور عیدین کی نمازوں کو سنت مانتے ہیں اور اسی وجہ سے یہ دونوں نمازیں بلاتکلف حنفی امام کے پیچھے پڑھ لیتے ہیں، مگر پنج وقتہ مفروض نمازیں اس کے پیچھے نہیں پڑھ سکتے۔ ہمارے نزدیک علمائے مہدویہ اگر کوشش فرماکے اس تفریق کو دور کردیں اور پانچوں مفروض نمازیں بھی ایک دوسرے کے پیچھے ادا کرنے لگیں تو وہ چیز جو جماعت اسلام میں تفرقہ ڈالنے والی ہے دور ہو جائے اور حنفیوں اور مہدویوں میں ویسا ہی اتحاد ہوجائے جیسا کہ حنفیوں، شافعیوں یا مقلدوں اور غیر مقلدوں میں ہے۔

اسی سلسلے میں مولوی اشرف علی صاحب کی کتاب بہشتی زیور کا بھی ذکر آیا، جس کی نسبت ان دنوں اخبارات میں چرچا تھا کہ ریاست پالن پور نے اپنی قلمرو میں اس کی تعلیم جبراً رکوا دی ہے۔ بہشتی زیور کو میں خود بھی ناپسند کرتا ہوں اور اس قابل نہیں سمجھتا کہ تعلیم درکنار، وہ عورتوں کے ہاتھ میں بھی دی جائے مگر اس آزادی کے دور میں ایک ریاست کی طرف سے اس قسم کے احکام کو میں بھی قطعاً جائز نہیں رکھ سکتا تھا۔یہاں دریافت کرنے سے صورت واقعہ یہ معلوم ہوئی کہ پالن پور میں مہدویوں سے کچھ زائد تعداد حنفیوں کی ہے، جو کمال بے تعصبی کے ساتھ رہتے اور باہم خلوص و محبت سے ملتے جلتے ہیں۔ فی الحال ایک مولوی صاحب دیوبند سے تعلیم پاکے پالن پور میں تشریف لائے اور انھوں نے پالن پور کے حنفیوں میں اُس سچی اور بے داغ حنفیت کی تعلیم شروع کی جس کا مرکز دیوبند ہے۔ پرانے حنفیوں میں جو قبر پرستی اور شرک و بدعات کے دلدادہ ہیں، مخالفت کا جوش بڑھا اور حنفیوں کےدو گروہ ہوگئے، جن میں اختلاف اور رد و قدح یہاں تک بڑھا کہ فساد اور بلوے کا اندیشہ ہوااور بنائے مخاصمت زیادہ تر یہ جھگڑا قرار پا گیا کہ ان نئے مولوی صاحب کو بہشتی زیور کی تعلیم پر اصرار تھا اور مخالف حنفیوں کو اس سے قطعاً انکار۔ ایک ایسے مقام پر جہاں قانونِ اسلحہ نہیں ہے اور لوگ ہتھیار رکھ سکتے ہیں، اس جھگڑے کے نتیجے میں خوں ریزی کا اندیشہ تھا، یہ حالت دیکھ کے ریاست نے مصلحتاً یہ حکم دے دیا کہ چند روز کے لیے فی الحال بہشتی زیور کی تعلیم موقوف رکھی جائے۔

اگر غور سے دیکھیے تو ریاست ایسا حکم دینے پر مجبور تھی، مگر بہشتی زیور کے طرفداروں نے اپنی ناراضی صفحات اخبار میں شائع کرکے ریاست کو بد نام کرنا شروع کردیا اور اکثر ایڈیٹران اخبار جو اصل واقعات سے بے خبر تھے ان کے مؤید ہوگئے۔ رئیس پالن پور اور ان کے ارکان دولت عموماً مہدوی ہیں اور مہدویوں کو اس جھگڑے سے کوئی ذاتی تعلق نہیں، یہ دراصل حنفیوں کا اندرونی جھگڑا ہے، جس کو واعظین بڑھا کے اکثر جگہ عام مسلمانوں کے امن و امان میں خلل ڈال دیا کرتے ہیں۔ فرنگی محل کے علما نے بھی بہشتی زیور کے خلاف فتوے دیے ہیں، اگرچہ ان کا یہ فعل بھی ہمیں پسند نہ آیا اور ہم اسے نہایت ہی مشتبہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں، مگر اس سے پالن پور کی گورنمنٹ کو اپنی قدیم حنفی رعایا کی خواہش کے مطابق اس کے روکنے کے جواز کا فتویٰ بھی مل گیا۔

مہدویوں میں فقہ حنفیہ کے ساتھ تصوف کی تعلیم اور قبر پرستی کا بہت رواج ہے اور وہ دعوی کرتے ہیں کہ ہماری تعلیم خالص روحانی تعلیم ہے، ہم کلامی استدلال سے نہیں بلکہ روحانی اثر سے مسلمانوں کو عقائد اسلامیہ کی حقیت باور کراتے ہیں۔ ان میں مذہبی تبلیغ و تلقین کے لیے جابجا متعدد “دائرے” قائم ہیں اور وہی ان کی مذہبی تعلیم کے مرکز ہیں۔ میں نے موجودہ حالات میں جہاں تک غور کیا ان دائروں کو بہت کمزور حالت میں پایا، اگرچہ بعض دائروں کے معلم و مرشد نہایت ہی نیک نفس اور پاک باطن بزرگ ہیں،مگر دائرے کاسسٹم جن اصول پر قائم کیا گیا تھا ان میں تبلیغ و تلقین کے ساتھ انتظامی کانسٹی ٹیوشن کی بھی ضرورت ہے جو بالکل مفقود ہے۔ اگر ان دائروں کی حالت درست ہو جائے اور جو نظام ان کے ذریعہ سے جاری کرنا مقصود تھا وہ زندہ کر دیا جائے تو مہدویت روحانیت اور تعلیم باطن کا سب سے اعلی آلہ بن جائے۔

مجھےعید الاضحیٰ پالن پور میں ہوئی۔ اگرچہ یہاں کے مسلمانوں میں دینی سرگرمی کم ہے مگر عید بہت ہی اچھی اور شاندار ہوتی ہے اور قومی وقار کا ایک اچھا نمونہ نظر آجاتا ہے۔ میں نےجن اسلامی شہروں کو دیکھا ان سب سے یہاں کی عید مجھے زیادہ با رونق نظر آئی۔ ولی عہد بہادر نے براہ کرم موٹر بھیج دی تھی، جس پر بیٹھ کے میں عید گاہ میں گیا، ایوان ریاست راستے میں تھا جہاں سے گزرتے وقت میں نے حضور نواب صاحب کو محل کے کوٹھے پر نمودار دیکھا، آداب بجا لایا اور جلوس کو جو جمع ہو رہا تھا دیکھتا ہوا عید گاہ پہنچا۔ وہاں شہر کے تمام مہدوی اور حنفی جمع تھےاور اچھا مجمع تھا، تھوڑی دیر کے بعد طبل و قرنا کی آواز آئی اور معلوم ہوا کہ حضور نواب صاحب کی سواری آ گئی۔ عَلَم ریاست لاکے منبر کے دونوں جانب کھڑے کردیے گئے، یہ اُس سنت قدیم کی پیروی تھی جس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں رواج تھا، یعنی شہر کے باہر میدان میں جا کے نیزہ گاڑ دیا جاتا۔ خود نواب صاحب اور محتشم الیہ کے دونوں جوان بخت فرزنداندر آئے اور حضور نے بکمال مرحمت مجھے بھی آگے بڑھا کے اپنے قریب کر لیا۔

جب نواب صاحب کو معلوم ہو گیا کہ جلوس کے تمام مسلمان ہمراہی عیدگاہ میں آ کے بیٹھ گئے تو شہر کی جامع مسجد کے حنفی امام نے نماز پڑھائی اور بعد فراغ نماز امام صاحب منبر پر کھڑے ہوکے اور جریب ہاتھ میں لے کے خطبہ پڑھنے لگے۔ اس وقت ریاست کےدو چوبدار ان کے داہنے بائیں جانب کھڑے ہوگئے اور خطبہ کے درمیان ہی ایک چوبدار نے ان کے سر پر پگڑی باندھی، جو ہر سال ریاست کی جانب سےعطا ہوا کرتی ہے۔ بعد نماز سب لوگ حسب معمول ملنے لگے، میں فوراً اٹھ کے باہر آیا اور موٹر پر سوار ہو کے واپس روانہ ہوا، مگر راستے میں ایک جگہ ٹھہر کے ارادہ کیا کہ حضور کی سواری اور جلوس کی پوری شان دیکھ لوں تو باغ دل کشا کی راہ لوں۔

اب اس وقت سلامی کی تو پیں چل رہی تھیں اور باجا بج رہا تھا، تھوڑی دیر میں جلوس آپہنچا، اونٹوں پر نقارے اور علم وغیرہ تھے، ان کے بعد باجے اور ریاست کی مختصر فوج تھی، اس کے بعد خود حضور مع صاحب زادوں اور دہلوی صاحب کے فٹن پر سوار تھے۔ ہمیشہ حضور گھوڑے پر سوار ہوا کرتے تھے، مگر اب کی ناتوانی و ضعف کی مجبوری سے گاڑی پر سوار ہو کے عیدگاہ تشریف لے گئے۔ جیسے ہی حضور کی گاڑی میرے قریب سے گزری، میں جھک کے آداب بجا لایا اور نواب صاحب نےہنس کے فرمایا: آپ یہاں کہاں؟ عرض کیا حضور کا جلوس دیکھنے کے لیے کھڑا ہو رہا۔ اس جواب پر خوش ہوئے اور سواری آگے بڑھ گئی۔

حضور کے پیچھے منصب داروں اور نظم جمعیت والوں کا ایک بڑا گروہ تھا، وہ سب گھوڑوں پر تھے، ان کے گزر جانے کے بعد میں روانہ ہوکے اپنی فرودگاہ میں آیا اور عید کے منظر کی دلچسپیوں سے دل ہی دل میں لطف اٹھاتا رہا۔ ان پرانی وضعوں کے نباہنے والے رئیسوں سے ہندوستان خالی ہوتا جاتا ہے، عید کے دن پر عظمت جلوس اور شان و شکوہ سے نکلنا مسلمان رعایا کے لیے ایک بہت ہی دلچسپ نظارہ ہے۔ قطع نظر اس کے کہ اس سے قدامت کی پر لطف یاد تازہ ہوجاتی ہے، بڑا فائدہ یہ ہے کہ دلوں میں حاکم کی قدربڑھتی ہے اور قومی بندشیں مضبوط ہوتی رہتی ہیں؛ مگر عہد جدید کے ہندوستانی رئیسوں کو اس کی مطلق پروا نہیں۔ میرے نزدیک رئیس پالن پور کے رعایا میں ہر دل عزیز ہونے کی زیادہ وجہ یہ ہے کہ ان قدیم رسمو ں کا وہ بہت لحاظ کرتے ہیں اور ایسے شاندار جلوس کے ساتھ برآمد ہوتے وقت راستے میں ہر طبقے کے لوگوں سے بخندہ پیشانی ملتے اور مختلف حیثیتوں کے لوگوں سے ان کے رتبے اور درجے کے مطابق صاحب سلامت اور مزاج پرسی فرماتے ہیں، جس سے لوگوں کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے۔

اس کے بعد اور دو روز کے لیے میں حضور کے اصرار سے ٹھہر گیا اور صاحبزادے صاحبوں خصوصاً ولی عہد بہادر کی عنایت و توجہ سے بہت لطف اٹھایا۔ انھوں نے صاحب پولٹیکل ایجنٹ سے ملایا، جو خلیق اور ملنسار آدمی ہیں۔ کلب میں اتفاق سے اسی زمانہ میں ٹورنامنٹ تھا اور بڑی ہی مستعدی سے ٹینس وغیرہ کے کھیل ہو رہے تھے، جن کو میں نے گھنٹوں بیٹھ کے دیکھا۔ حضور ولی عہد بہادر بڑے روشن خیال رئیس ہیں اور یہ امر غور کے قابل ہے کہ انھوں نے اگرچہ اپنے گھر میں بالکل پرائیوٹ تعلیم پائی ہے، مگر بیدار مغزی اور اخلاقی خوبیوں میں ان تمام رئیسوں اور رئیس زادوں سے بدرجہا زیادہ بڑھے ہوئے ہیں جنھوں نے اجمیر کے چیفس کالج میں تعلیم پائی ہے۔

میری آخری رخصتی ملاقات حضور نواب صاحب بہادر سے بہت ہی دلچسپ تھی۔ حضور نے نہایت ہی شگفتگی کے ساتھ رخصت کیا، کھڑے ہوگئے، اپنے کوچ سے دو قدم آگے بڑھ آئے، ہاتھ ملایا اور کچھ ایسے محبت بھرے الفاظ ارشاد فرمائےکہ میں دل میں ان کی محبت و مرحمت کا نہایت ہی گہرا اثر لے کے آیا ہوں اور زندگی بھر شکر گزار اور رہین منت رہوں گا اور حضور سے زیادہ امید فلاح و بہبودی مجھے نواب زادہ طالع محمد خاں صاحب سے ہے جواپنی قابلیت اور بیدار مغزی سے پالن پور کے لیے آئندہ ایک بڑی برکت اور نعمت الٰہی ثابت ہونے والے ہیں۔

جہاں تک مجھے پتہ لگا ہے، ان کے عادات و اطوار نہایت اچھے اور پاکیزہ ہیں۔ مے کشی، عیاشی، کاہلی اور بے پروائی جن آفتوں میں اکثر دولت مند ان وطن مبتلا نظر آتے ہیں، ان سے خدا نے انھیں بالکل الگ اور آج تک ان کے دامن کو پاک و صاف رکھا ہے۔ انھیں ریاست کے انتظامی مشاغل سے اتنی فرصت ہی نہیں ملتی کہ ان اخلاق کُش باتوں میں مبتلا ہوں اور عمر اتنی پختگی کو پہنچ گئی ہے کہ آئندہ بھی ان کے چال چلن پر کسی مضر اثر کے پڑنے کا بہت ہی کم اندیشہ ہو سکتا ہے۔

پالن پور کے موجودہ عہدہ داروں میں مسٹر دہلوی بہت ہی خلیق اور غیر معمولی قابلیت کےبزرگ ہیں۔ وہ ایک مدت تک سندھ میں رہے ہیں، جس ملک کے حالات میں وہاں کی تاریخ لکھنے کے باعث مجھے بہت لطف آتا ہے۔ مسٹردہلوی سے مجھے انگریزی میں حالات سندھ کے متعلق چند ایسی سرکاری رپورٹیں مل گئیں جن سے اُس سرزمین کے تمام حالات آئینہ ہو جاتے ہیں، جس کی بابت میں ان کا نہایت ہی شکر گزار ہوں۔

اور اسی طرح بندۂ احسان شبیر میاں صاحب کا ہوں جنھوں نے میرے زمانۂ قیام پالن پور کو ایک نہایت مسرت بخش خواب بنا دیا جو ہمیشہ یاد آئے گا اور مزہ دے گا۔ شبیر میاں صاحب کی یادگار میرے پاس ایک تاریخ گجرات بھی ہے جس سے مجھے علمی ضرورتوں میں وقتاً فوقتاً مدد ملتی رہے گی اور ہمیشہ ان کا شکر گزار رہوں گا، مگر سب سے زیادہ برکت یہ گلاب میاں صاحب کی قدیم محبت و مرحمت کی ہے، جس کی کشش مجھے اراولی کے دامن میں کھینچ لے گئی، ورنہ کہاں میں اور کہاں وہ مینو سواد سرزمین؟