شریف عورتیں اور فلمی دنیا

شریف عورتیں اور فلمی دنیا (1942)
by سعادت حسن منٹو
319923شریف عورتیں اور فلمی دنیا1942سعادت حسن منٹو

جب سے ہندوستانی صنعت فلم سازی نے کچھ وسعت اختیار کی ہے، سماج کے بیشتر حلقوں میں یہ سوال بحث کا باعث بنا ہوا ہے کہ شریف عورتوں کو اس ملکی صنعت سے اشتراک کرنا چاہیئے یا نہیں؟ بعض اصحاب اس صنعت کو کسبیوں اور بازاری عورتوں کی ’’نجاست‘‘ سے پاک کرنے کے پیشِ نظر اس بات کے حق میں ہیں کہ شریف عورتیں بیش از بیش سینما کے نقرئی پردے پر آنے کی کوشش کریں، لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ بعض حضرات ایسے بھی ہیں جو سینما لائن سے شریف عورتوں کا اشتراک ایک لمحے کے لئے گوارا نہیں کرتے اور اسے ایک گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اول الذکر ملکی صنعت کو پاک کرنے کے شاندار جذبے کے زیراثر یہ بھول جاتے ہیں کہ جس نجاست کو وہ ایک چہرے سے دور کرنا چاہتے ہیں، دوسرے چہرے پر ویسی کی ویسی جمی رہتی ہے۔ فلمی کارخانوں سے کسبیوں کو باہر نکال دینے سے وہ بازار بند نہیں ہوتے جہاں یہ عورتیں مردوں کے پاس اپنی اجناس فروخت کرتی ہیں۔ مؤخر الذکر جو اسٹوڈیو کی گندی فضا میں شریف عورتوں کو جانے کی اجازت نہیں دیتے، اس مجلا و مطہر جذبے کی شدت کے باعث یہ حقیقت بالکل بھول جاتے ہیں کہ وہ بدچلن عورتیں جو سینما کے پردوں پر آتی ہیں اور جن کے گانوں اور ایکٹنگ سے وہ اپنے تھکے ہوئے دماغوں کو راحت بخشتے ہیں، جن کے آرٹ سے وہ علم حاصل کرتے ہیں، کسی زمانے میں شریف عورتیں ہی تھیں۔

اگر چکلے کی کوئی عورت اپنا کاروبار چھوڑ کر کسی فلم کمپنی میں داخل ہو جاتی ہے اور اس نئی لائن میں اپنا کام بطریق احسن کرتی ہے تو ہمیں یا آپ کو اس کے اس اقدام پر اعتراض کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ بازاری عورتیں سماج کی پیداوار ہیں اور سماج کے وضع کردہ قوانین کی کھاد ان کی پرورش کرتی ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ انہیں بیگانہ تصور کیا جائے اور کیوں ان کی موت کی تدبیریں سوچی جائیں جبکہ وہ سماج کا ایک حصہ ہیں، اس کے جسم کا ایک عضو ہیں، اگر ان کو اچھا بنانا درکار ہے تو سارے جسم کے نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے، جب تک سماج اپنے قوانین پر ازسر نو غور نہ کرے گا، وہ ’’نجاست‘‘ دور نہ ہوگی جو تہذیب و تمدن کے اس زمانے میں ہر شہر اور ہر بستی کے اندر موجود ہے۔

سانس کا زیر و بم قائم رکھنے کے لئے دفتر کا بے ضرر کلرک سارا دن حساب کی جانچ پڑتال کرتا ہے اور سیکڑوں کاغذ سیاہ کرتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح زندہ رہنے کے لئےشہر کامے فروش دن بھر قانون کے سائے تلے شراب بیچتا ہے۔ دونوں کا مقصد ایک ہے۔ راستے جدا جدا ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ اگر ہمارے دفتر کے بے ضرر کلرک کو ایسے ذرائع میسر آتے یا حالات کچھ اس قسم کے ہوتے تو وہ مے فروشی شروع کر دیتا۔ کیا وجہ ہے کہ عورتوں کا جسم بیچنا حیرت اور نفرت سے دیکھا جاتا ہے۔ ایسی عورتوں کا وجود ہر گز ہر گز حیرت خیز یا نفرت انگیز نہیں ہے۔

ہماری شریف عورتوں کی شرافت ا س لئے برقرار ہے کہ انہوں نے بالکل جدا قسم کے ماحول میں پرورش پائی۔ والدین کے سایہ عاطفت سے نکل کر وہ اپنے کماؤ شوہروں کے پاس چلی آئیں اور زندگی کے پرپیچ راستوں سے بالکل الگ تھلک رہیں۔ جن ’’شریف عورتوں‘‘ کو والدین کا سایہ عاطفت نہ ملا، جو تعلیم سے بے بہرہ رہیں، جن کو خود اپنا پیٹ بھرنے کا سامان کرنا پڑا وہ سڑک کے پتھر کی طرح جدا ہو گئیں۔ انہیں لامحالہ ٹھوکریں کھانا پڑیں۔ کچھ مقابلے کی تاب نہ لا کر مر گئیں۔ کچھ سڑکوں پر بھیک مانگنے لگیں، کچھ ہسپتالوں میں داخل ہو گئیں۔ کچھ محنت مزدوری کے ذریعے سے اپنا پیٹ پالنے لگیں اور کچھ زندگی کی ایک آگ سے گزر کر ایک ایسے تنور میں جاگریں جو ہمیشہ گرم رہتا ہے، یعنی وہ بیسوا بن گئیں۔

ویشیا پیدا نہیں ہوتی، بنائی جاتی ہیں یا خود بنتی ہے۔ جس چیز کی مانگ ہوگی منڈی میں ضرور آئے گی۔ مرد کی نفسانی خواہشات کی مانگ عورت ہے، خواہ وہ کسی شکل میں ہو، چنانچہ اس مانگ کا اثر یہ ہے کہ ہر شہر میں کوئی نہ کوئی چکلہ موجود ہے، اگر آج یہ مانگ دور ہو جائے تو یہ چکلے خودبخود غائب ہو جائیں گے۔ جو نظریہ ہمارے نام نہاد وقار پسند حضرات نے ویشیاؤں کے متعلق قائم کر رکھا ہے، بنیادی طور پر غلط ہے۔ اس میں اپنے ذاتی وقار، ذاتی تعزز اور ذاتی تشخص برقرار رکھنے کے جذبے کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔

چونکہ مرد کے ہاتھ میں اکثر و بیشتر اختیارات کی باگ ڈور ہے، ا س لئے وہ اس سے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے۔ سوسائٹی کے اصولوں کے مطابق مرد مرد رہتا ہے خواہ اس کی کتاب زندگی کے ہر ورق پر گناہوں کی سیاہی لپی ہو، مگر وہ عورت جو صرف ایک مرتبہ جوانی کے بے پناہ جذبے کے زیر اثر کسی اور لالچ میں آ کر یا کسی مرد کی زبردستی کا شکار ہو کر ایک لمحے کے لئے اپنے راستے سے ہٹ جائے، عورت نہیں رہتی۔ اسے حقارت و نفرت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ سوسائٹی اس پر وہ تمام دروازے بند کر دیتی ہے جو ایک سیاہ پیشہ مرد کے لئے کھلے رہتے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں اگر عورت کی عصمت ہے تو کیا مرد اس گوہر سے خالی ہے؟ اگر عورت عصمت باختہ ہو سکتی ہے تو کیا مرد نہیں ہوتا؟ اگر ان سوالوں کا جواب اثبات میں ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہمارے تیروں کا رخ صرف عورت کی طرف ہوتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اسٹوڈیو میں ویشیاؤں کا داخلہ بند کر دیا جائے۔ کیا یہ کہنا دبی زبان میں اس بات کا اقرار نہیں کہ مردوں کو اپنے آپ پر قابو نہیں ہے اور کیا یہ اس حقیقت کا ثبوت نہیں کہ مرد عورت کے مقابلے میں بہت زیادہ کمزور اور آسانی سے بہک جانے والا ہے۔ اسٹوڈیو میں عورتوں اور مردوں کا یکجا رہنا ضروری ہے۔ فریقین کا باہمی اختلاط خوشگوار نتائج کا موجب ہو سکتا ہے، اگر جسمانی خواہشات کی تکمیل کو فلم لائن کا ایک لازمی جزو خیال نہ کیا جائے، اگر مرد اپنے جذبات قابو میں رکھے تو عورت کوشش کے باوجود فضا مکدّر نہیں کر سکتی۔ جو حضرات شریف عورتوں کو فلم لائن میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں۔ میں ان سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ شرافت سے ان کی کیا مراد ہے۔ کیا وہ عورت جو قانون کی اس دنیا میں سر بازار اپنا مال بیچتی ہے اور کوئی دھوکا نہیں دیتی، شریف نہیں ہے؟

اگر شرافت کے معنی باعصمت ہونے کے لئے جاتے ہیں تو میں ان لوگوں سے جو شریف عورتوں کو فلم اسٹوڈیو میں داخل ہونے کی دعوت دیتے ہیں، یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ ایکٹرس کے لئے باعصمت ہونا کیا ضروری خیال کرتے ہیں؟ کیا جذبات نگاری اور تمثیل نگاری کے لئے عورت میں عصمت کی برقراری ضروری ہے؟ اگر ان کا یہی خیال ہے تو یہ بالکل باطل ہے اور ان کے ادراک کی کمزوری کا باعث ہے۔ جذبات نگاری اور ایکٹنگ کے لئے ایکٹر اور ایکٹرس کو دنیا کے بیشتر نشیب و فراز سے آگاہ ہونا از بس ضروری ہے۔ کوئی شریف عورت کیمرے کے سامنے اپنے فرضی عاشق کی جدائی کے اثرات اپنے چہرے پر پیدا نہیں کر سکتی جب تک وہ اسی قسم کے حادثے سے پہلے دو چار نہ ہو چکی ہو، جو عورت غم سے ناآشنا ہے وہ غم کے اثرات خود پر کس طرح طاری کر سکتی ہے۔ ایکٹرس بننے سے پیشتر عورت کو عشق و محبت کی تلخیوں اور مٹھاسوں کے علاوہ اور بہت سی چیزوں سے آشنا ہونا چا ہیئے ا س لئے کہ جب وہ کیمرے کے سامنے آئے تو اپنے کریکٹر کو اچھی طرح ادا کر سکے۔

حقائق ہمارے سامنے ہیں۔ ان پر پردہ پوشی نہیں کی جا سکتی، اگر ہمیں فلمی فن کی ترقی مقصود ہے، اگر ہم اس فن کو چمکانا چاہتے ہیں اور اسے غلط خطوط پر چلانے کے متمنی نہیں ہیں تو ہمیں اپنی نظر بلند رکھنا پڑے گی۔ گناہ یا ثواب انسان کی ذات سے متعلق ہے، اس سے فن کو کوئی واسطہ نہیں، فلم لائن پر شریف عورتوں کا قبضہ ہو یا غیر شریف عورتوں کا۔ مطلب صرف اس سے ہے کہ ہماری فلمیں زندگی کی آئینہ دار ہوں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ حسن فروشی اور جسم فروشی اچھی چیز ہے۔ میں اس بات کی وکالت بھی نہیں کرتا کہ ان ویشیاؤں کو فلم کمپنیوں میں جوق در جوق داخل ہونا چا ہیئے۔ میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں یا جو کچھ میں کہہ چکا ہوں نہایت واضح اور صاف ہے۔

کامیاب ایکٹرس بننے کے لئے ہر عورت کو آزمودہ کار ہونا چاہیئے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ وہ تصویر زندگی کے روشن و تاریک دونوں پہلوؤں سے آشنا ہو۔ اس کے آبگینہ دل پر اگر حادثات نے لکیریں نہیں کھینچیں، اگر اس کے حافظے کی تختی پر متنوع حوادث کے نقوش موجود نہیں تو وہ کسی صورت میں اچھی اور کامیاب مماثلہ نہیں بن سکتی۔ جیساکہ میں اس سے پیشتر لکھ چکا ہوں۔ ایکٹرس بننے کے لئے عورت کو زندگی کی سرد اور گرم لہروں سے واقف ہونا بے حد ضروری ہے۔

ایکٹرس چکلے کی ویشیا ہو یا کسی باعزت اور شریف گھرانے کی عورت، میری نظروں میں وہ صرف ایکٹرس ہے۔ اس کی شرافت یا رزالت سے مجھے کوئی سروکار نہیں۔ ا س لئے کہ فن ان ذاتی امور سے بہت بالاتر ہے۔ چکلے کی ویشیا نہایت بلند پایہ ادیب ہو سکتی ہے۔ اس کے خیالات و افکار سے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچ سکتا ہے اور ایک گر ہستی تعلیم یافتہ عورت کی شرافت نہایت ہی مہلک نتائج کا موجب ہو سکتی ہے۔ بغاوت فرانس میں پہلی گولی پیرس کی ایک ویشیا نے اپنے سینے پر کھائی تھی۔ امرت سر میں جلیانوالہ باغ کے خونیں حادثے کی ابتدا اس نوجوان کے خون سے ہوئی تھی جو ایک ویشیا کے بطن سے تھا۔

خاکساران جہاں را بحقارت منگر
توچہ دانی کہ دریں گرد سوارے باشد


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.