شری کرشن
ہیں جسودھا کے لئے زینت آغوش کہیں
گوپیوں کے بھی تصور سے ہیں روپوش کہیں
دوارکا جی کا بسانا تو مبارک لیکن
کر نہ دیں برج کی گلیوں کو فراموش کہیں
کھا کے تندل کہیں اعزاز سداما کو دیا
ساگ خوش ہو کے بدر جیؔ کا کیا نوش کہیں
خود بچن دے کے جراؔ سندھ سے رن میں بھاگے
رہے بد گوئی ششپال پہ خاموش کہیں
دوارکا دھیش کہیں بن کے مکٹ سر پہ رکھا
کالی کملی رہی جنگل میں سردوش کہیں
گوپیاں سن کے مرلیا ہوئیں ایسی بیتاب
گر گئے ہار کہیں رہ گئی پاپوش کہیں
مدھ بھرے نین سے آنکھیں نہ ملاؤ کیفیؔ
لوگ مشہور نہ کر دیں تمہیں مے نوش کہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |