شغل (1940)
by سعادت حسن منٹو
325266شغل1940سعادت حسن منٹو

(میکسم گورکی کی یاد میں)

یہ پچھلے دنوں کی بات ہے جب ہم برسات میں سڑکیں صاف کرکے اپنا پیٹ پال رہے تھے۔ہم میں سے کچھ کسان تھے اور کچھ مزدوری پیشہ، چونکہ پہاڑی دیہاتوں میں روپے کا منہ دیکھنا بہت کم نصیب ہوتا ہے۔ اس لیے ہم سب خوشی سے چھ آنے روزانہ پر سارا دن پتھر ہٹاتے رہتے تھے۔ جو بارشوں کے زور سے ساتھ والی پہاڑیوں سے لڑھک کر سڑک پر آ گرتے تھے۔

پتھروں کو سڑک پر سے پرے ہٹانا تو خیر اک معمولی بات تھی۔ ہم تو اس اجرت پر ان پہاڑیوں کو ڈھانے پر بھی تیار تھےجو ہمارے گردوپیش سیاہ اور ڈراؤنے دیوؤں کی طرح اکڑی کھڑی تھیں۔ دراصل ہمارے بازوسخت سے سخت مشقت کے عادی تھے، اس لیے یہ کام ہمارے لیے بالکل معمولی تھا۔ البتہ جب کبھی ہمیں سڑک کو چوڑا کرنے کے لیے پتھر کاٹنا ہوتے، تو رات کو ہمیں بہت تکان محسوس ہوتی تھی۔ پٹھے اکڑ جاتے اور صبح کو بیدار ہوتے وقت ایسا محسوس ہوتا کہ وہ تمام پتھر جنھیں ہم گزشتہ روز کاٹتے اور پھوڑتے رہے ہیں، ہمارے جسموں پر بوجھ ڈالے ہوئے ہیں۔ مگر ایسا کبھی کبھی ہوتا تھا۔

ہمارا کام ہر روز صبح سات بجے شروع ہوتا تھا۔ جب طلوع ہوتے ہوئے سورج کی طلائی کرنیں چیڑ کے دراز قد درختوں سے چھن چھن کر ہمارے پاس والے نالے کے خشم آلود پانی سے اٹکھیلیاں کر رہی ہوتیں، اور آس پاس کی جھاڑیوں میں ننھے ننھے پرندے اپنے گلے پھلا پھلا کر چیخ رہے ہوتے۔ یوں کہیے کہ ہم قدرت کو اپنے خواب سے بیدار ہوتا دیکھتے تھے۔ صبح کی ہلکی پھلکی ہوا میں شبنم آلود سبز جھاڑیوں کی دل نواز سرسراہٹ ،نالے میں سنگ ریزوں سے کھیلتے ہوئے کف آلود پانی کا شور، اور برسات کے پانی میں بھیگی ہوئی مٹی کی بھینی بھینی خوشبو، چند ایسی چیزیں تھیں، جو ہمارے سنگین سینوں میں ایک ایسی لطافت پیدا کر دیتی تھیں جو زندگی کے اس دوزخ میں ہمیں بہشت کے خواب دکھانے لگتی۔

ہمیں ہر روز بارہ گھنٹے کام کرنا پڑتا تھا۔ یعنی سارا دن ہم سڑک کی موریوں اور پتھروں کو صاف کرتے رہتے تھے۔ یہ کام دلچسپ نہ تھا مگر ہم نے اس کی ناخوشگوار یک آہنگی کو دور کرنے کے لیے ایک طریقہ ایجاد کر لیا تھا۔ جب ہم سب اس پہاڑی کے نیچے جمع شدہ ملبے کو اپنے بیلچوں سے ہٹا رہے ہوتے، جس کے سنگ ریزے ہر وقت سڑک پر گرتے رہتے تھے، تو ہم ایک سر میں کوئی پہاڑی گیت شروع کر دیتے، ملبے کے پتھروں سے ٹکرا کر ہمارے بیلچوں کی جھنکار اس گیت کی تال کا کام دیتی تھی۔ یہ گیت اس افسردگی کو دور کر دیتا، جو یہ غیر دلچسپ کام کرنے سے ہمارے دلوں میں پیدا ہو جاتی ہے۔ جب تک اس کے سر ہماری چوڑی چھاتیوں میں سے نکلتے رہتے، ہم محسوس تک نہ کرتے کہ اس دوران ہم نے ملبے کے ایک بہت بڑے ڈھیر کو صاف کر لیا ہے۔

موٹر لاریوں کی آمدورفت سے بھی ہمارا دل بہلا رہتا تھا۔ جو رنگ برنگ مسافروں کو کشمیر سے واپس یا کشمیر کی طرف لے جاتی رہتی تھیں۔ جب کبھی کوئی لاری ہمارے پاس سے گزرتی تو ہم کچھ عرصہ کے لیے اپنی جھکی ہوئی کمریں سیدھی کرکے سڑک کے ایک طرف کھڑے ہو جاتے اور زمین پر اپنے بیلچے ٹیک کر اس کو سامنے والے موڑ کے عقب میں گُم ہوتے دیکھتے رہتے۔ ان لاریوں کو اتنی دور تک دیکھتے رہنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم تھوڑا سستا لیں۔ مگر بعض اوقات ان لاریوں کی شاندار اسباب سے لدی ہوئی چھتیں اور ان کی کھڑکیوں سے مسافروں کے لہراتے ہوئے ریشمی کپڑوں کی ایک جھلک ہمارے دلوں میں ایک ناقابل بیان تلخی پیدا کر دیتی تھی۔ اور ہم اپنے آپ کو ان پتھروں کی طرح فضول اور ناکارہ تصّور کرنے لگتے تھے، جن کو ہمارے بیلچوں کے دھکے ادھر ادھر پٹکتے رہتے تھے۔ ان مسافروں کے طرح طرح کے لباس دیکھ کر جن پر یقیناًبہت سے روپے صرف آئے ہوں گے،ہم غیر ارادی طور پر اپنے کپڑوں کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے تھے۔

ہم میں سے اکثر کا لباس پٹّو کے تنگ پائجامے، گاڑھے کی قمیص اور لدھیانے کی صدری پر مشتمل تھا۔ سب کے پائجامے یا تو گھٹنوں پر سے گِھس گِھس کر اتنے باریک ہو گئے تھے کہ ان میں سے جسم کے بالوں کی پوری نمائش ہوتی تھی یا بالکل پھٹے ہوئے تھے۔ قمیصوں اور صدریوں کی بھی یہی حالت تھی۔ ان پر جگہ جگہ مختلف رنگ کے پیوند لگے ہوئے تھے۔ قریب قریب ہم سب کی قمیصوں کے بٹن غائب تھے۔ اس لیے سینے عام طور پر کھلے رہتے تھے،اور کام کرتے وقت ان پر پسینے کی بوندیں صاف نظر آسکتی تھیں۔

بارہ بجے کے قریب ہم کام چھوڑ کر کھانے کے لیے سڑک کے نیچے اتر کر پیڑ کے سائے تلے بیٹھ جاتے تھے۔ یہ کھانا ہم صبح کپڑے میں باندھ کر اپنے ساتھ لاتے تھے۔ ’’تین ڈھوڈے‘‘ (مکئی کی موٹی روٹیاں) اور عام طور پر سرسوں کا ساگ ہوتا تھا جس کو ہم اپنے بھوکے پیٹ میں ڈالتے تھے۔ کھانے کے بعد ہم پانی عموماً نالے سے پیا کرتے تھے، اور جس روز بارش کی زیادتی کے باعث اس کا پانی زیادہ گدلا ہو جائے تو ہم دور سڑک کے اس پار چلے جایا کرتے تھے جہاں صاف پانی کا ایک چشمہ پھوٹتا ہے۔

کھانے سے فارغ ہو کر ہم فوراً کام شروع کر دیتے تھے۔ مگر ہمارا جی چاہتا تھا کہ نرم نرم گھاس پر لیٹ کر تھوڑی دیر سستا لیں اور پھر کام شروع کریں مگر یہ کیونکر ہو سکتا تھا جب کہ ہمیں ہر وقت اس بات کا خیال رہتا تھاکہ پورا کام کیے بغیر اجرت نہ ملے گی۔

ہمارا مطمح نظر کام کرنا اور اس حیلے سے اپنا پیٹ پالنا تھااور چونکہ ہمیں معلوم تھا کہ ہم میں سے کسی نے اگر اپنے کام میں ذرا سی سست رفتاری یا بے دلی کا اظہار کیا تو تاش کی گڈی سے ناکارہ جوکر کی طرح باہرنکال کر پھینک دیا جائے گا۔ اس لیے ہم دل لگا کر کام کیا کرتے تھے تاکہ ہمارے افسروں کو شکایت کا موقع نہ ملے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہمارے افسر ہم پر بہت خوش تھے۔ یہ کیونکر ہو سکتا ہے۔ وہ بڑے آدمی ٹھہرے اس لیے ان کا جائز و ناجائز طور پر خفا ہونا بھی درست ہوتا ہے۔

کبھی یہ لوگ ایسے ہی ہمارے کام کا معائنہ کرتے وقت اپنی بے اطمینانی کا اظہار کرتے ہوئے ہم پر برس پڑتے تھے۔ لیکن ہم جو ان کی بڑائی کو بخوبی سمجھتے تھے، مہاراج، مہاراج کہہ کر ان کا غصّہ سرد کر دیا کرتے۔ہم جانتے تھے، کہ ان کا غصّہ بالکل بے جا ہے لیکن یہ احساس ہمارے دلوں میں نفرت کے جذبات پیدا نہیں کرتا تھا۔ شاید اس لیے کہ کونشوں نے ہم کو بالکل مردہ بنا رکھا ہے، یا پھر اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہم کو یہ خوف دامن گیر رہتا تھا کہ اگر ہم اپنے موجودہ کام سے ہٹا دیے گئے تو ہماری روزی بند ہو جائے گی۔

ہم اپنے کام سے مطمئن تھےاور یہی وجہ ہے کہ ہم تھوڑی مزدوری اور زیادہ کام کے مسئلے پر بہت کم غور کرتے تھے۔ اس کی ضرورت بھی کیا ہے۔ اس لیے کہ یہ کام پڑھے لکھے آدمیوں کا ہے، اور ہم بالکل ان پڑھ اور جاہل تھے۔ دراصل بات یہ ہے کہ ہماری دنیا بالکل الگ تھلگ تھی جس کی سرحدیں پتھر توڑنے یا ان کو ہٹانے، بارہ بجے روٹی کھانے اور پھر کام کرنے اور اس کے بعد اپنے اپنے ڈیروں میں سو جانے تک ختم ہو جاتی تھیں۔ ہمیں ان حدود کے باہر کسی شے سے کوئی سروکار نہ تھا۔ دوسرے الفاظ میں اپنا اور اپنے متعلقین کا پیٹ پالنے کے دھندے میں ہم کچھ ایسی بری طرح پھنس کر رہ گئے تھے کہ اس کے باہر نکل کر ہم کسی اور شے کی خواہش کرنا ہی بھول گئے تھے۔

ہمارے کام پر سڑکوں کے محکمے کی طرف سے ایک نگراں مقرر تھا، جو دن کا بیشتر حصہ سٹرک کے ایک طرف چارپائی بچھا کر بیٹھے رہنے میں وقت گزار دیتا۔ یہ ذات کا پنڈت تھا۔ اونچے طبقے کا امتیازی نشان سیندور کے تلک کی صورت میں ہر وقت اس کی سفید پیشانی پر چمکتا رہتا تھا۔ ہم اپنے نگراں کو احترام اور عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اوّل اس لیے کہ وہ برہمن تھا اور دوسرے اس لیے کہ ہم اس کے ماتحت تھے۔ چنانچہ ادھر ادھر کے دوسرے کاموں کے علاوہ ہم باری باری دن میں کئی بار اس کے پینے کے لیے حقہ تازہ کیا کرتے تھے اور آگ بنا کر اس کی چلمیں بھرا کرتے تھے۔

پنڈت کا کام صرف یہ تھا کہ صبح چارپائی پر اپنے گیروے رنگ کی کلف لگی پگڑی اور ریشمی کوٹ اتار کر اپنے گنجے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ہماری حاضری لگائے، اور پھر ایک بڑے رجسٹر میں کچھ درج کرنے کے بعد ادھر ادھر ٹہلتا رہے یا حقہ پیتا رہے۔ وہ اپنے کام میں بہت کم دلچسپی لیتا تھا۔ البتہ جب کبھی معائنے کے لیے کسی افسر کی موٹر ادھر سے گزرتی تھی تو وہ اپنی چارپائی اٹھوا ہمارے پاس کھڑا ہو جایا کرتا تھا۔ اس کی اس چالاکی پر ہم دل ہی دل میں بہت ہنسا کرتے تھے۔

ایک روز جبکہ صبح سے ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی،اور ہم بارہ بجے کھانے سے فارغ ہو کر حسبِ معمول اپنے کام میں مشغول تھے، موٹر کے ہارن نے ہمیں چونکا۔ دیا لاریوں کی نسبت ہم موٹروں کے دیکھنے کے بہت شائق تھے۔ اس لیے کہ ان میں ہماری بھوکی نظروں کے دیکھنے کے لیے عجیب و غریب چیزیں نظر آتی تھیں۔ ہم کمریں سیدھی کرکے کھڑے ہو گئے۔ اتنے میں موٹر کے عقب سے سبز رنگ کی ایک چھوٹی موٹر نمودار ہوئی، جب یہ ہمارے قریب پہنچی،تو ہم نے دیکھا کہ اس کی باڈی بارش کے ننھے ننھے قطروں کے نیچے چمک رہی ہے بہت آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ شاید اس لیے کہ پچھلی سیٹ پر جو دو صاحب بیٹھے ہوئے تھے، ان میں ایک اپنی رانوں پر گراموفون رکھے بجا رہے تھے۔ جب یہ موٹر ہمارے مقابل آئی تو ریکارڈ کی آواز سڑک کے ساتھ والی پہاڑی کے پتھروں سے ٹکرا کر فضا میں گونجی۔ کوئی گا رہا تھا۔

نہ میں کسی کا، نہ کوئی میرا چھایا چاروں اور اندھیرا

اب کچھ سوجھت ناہیں، موہے اب کچھ

آواز میں بے حد درد تھا۔ ایک لمحے کے لیے ایسا معلوم ہوا کہ ہم شاید بحرِ ظلمات میں ڈوب گئےہیں۔ جب موٹر اپنی نیم وا کھڑکیوں سے اس گیت کے درد ناک سر بکھیرتی ہوئی ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئی تو ہم سب نے ایک آہ بھر کر اپنا کام شروع کر دیا۔

شام کے قریب جب سورج کی سرخ اور گرم ٹکیا پگھلے ہوئے تانبے کا رنگ اختیار کرکے ایک سیاہ پہاڑی کے پیچے چھپ رہی تھی۔ اور اس کی عنابی کرنیں دراز قد درختوں کی چوٹیوں سے کھیل رہی تھیں۔ سبز رنگ کی وہی موٹر اس طرف سے واپس آتی دکھائی دی جدھر وہ دوپہر کو گئی تھی۔ جب ہم نے اس کے ہارن کی آواز سنی تو کام چھوڑ کر اس کو دیکھنے لگے۔ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی وہ ہمارے آگے سے گزر گئی۔ اور پھر دفعتاً ہم سے آدھی جریب کے فاصلے پر کھڑی ہو گئی۔ وہ باجا جو اس میں بج رہا تھا، خاموش ہو گیا۔

تھوڑی دیر کے بعد پچھلی سیٹ سے ایک نوجوان دروازہ کھول کر باہر نکلا، اور اپنی پتلون کو کمر پر سے درست کرتا ہوا ہمارے پاس سے گزرا، اور آہستہ آہستہ اس پل کی طرف روانہ ہو گیا، جو سامنے نالے پر بندھا ہوا تھا۔ یہ خیال کرکے کہ وہ نالے کے پانی کا نظارہ کرنے کے لیے گیا ہے، جیسا کہ عام طور پر ادھر سے گزرنے والے مسافر کیا کرتے تھے، ہم اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔

ابھی ہمیں اپنا کام شروع کیے پانچ منٹ سے زیادہ عرصہ نہ گزرا ہو گا کہ پل کی طرف سے تالی کی آواز بلند ہوئی۔ ہم نے مڑ کر دیکھا، پتلون پوش نوجوان سڑک کے ساتھ پتھروں سے چنی ہوئی دیوار کے پاس کھڑا غالباً موٹر میں اپنے ساتھیوں کو متوجہ کر رہا تھا۔ سنگین منڈیر پر اس نوجوان سے کچھ دور ایک لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔

ہم میں سے ایک نے اپنے بیلچے کو بڑے زور سے موری کی گیلی مٹی میں گاڑتے ہوئے کہا، ’’یہ رام دئی ہے۔‘‘ کالو نے جو اس کے پاس کھڑا تھا، دریافت کیا، رام دئی؟‘‘

’’سنتو چمار کی لڑکی اور کون؟‘‘ اس کے لہجے میں بیلچے کے لوہے ایسی سختی تھی۔

ہم باقی چار حیران تھے کہ اس گفتگو کا مطلب کیا ہے۔ اگر وہ لڑکی جو منڈیر پر بیٹھی ہے، سنتو چمار کی لڑکی ہے، تو کون سی اہم بات ہےکہ ہمارا ساتھی اس قدر تیز بول رہا ہے۔ ہم غور کر رہے تھے کہ فضل نے ،جو ہم سب سے عمر میں بڑا تھا اور نماز روزے کا بہت پابند تھا، اپنی داڑھی کھجلاتے ہوئے نہایت ہی مفکرانہ لہجے میں کہا، ’’دنیا میں ایک اندھیر مچا ہے۔۔۔خدا معلوم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے۔‘‘ یہ سن کر ہم باقی تین اصل معاملے سے آگاہ ہو کر سب کچھ سمجھ گئے، اور اس احساس نے ہمارے دلوں پر غم اور غصّے کی ایک عجیب کیفیت طاری کر دی۔

تالی کی آواز سن کر موٹر کی پچھلی نشست سے پتلون پوش کے ساتھی نے اپنا سر باہر نکالا،اور یہ دیکھ کر کہ اس کا دوست اسے بلا رہا ہے، دروازہ کھول کر باہر نکلا اور ہمارے قریب سے گزرتا ہوا پل کی جانب روانہ ہو گیا۔۔۔ہم بیوقوف بکریوں کی طرح اسے اپنے دوست کے پاس جاتا دیکھتے رہے۔جب پتلون پوش نوجوان کا دوست اس کے پاس پہنچ گیا تو وہ دونوں لڑکی کی طرف بڑھے۔ اور اس سے باتیں کرنا شروع کر دیں۔ یہ دیکھ کر کالو پیچ و تاب کھا کر رہ گیا اور خشم آلود لہجے میں بولا، ’’بدمعاش!‘‘

فضل نے سرد آہ بھری اور مغموم لہجے میں کہنے لگا، ’’جب سے یہ سڑک بنی ہے ، اور ایسے بابوؤں کی آمدورفت زیادہ ہو گئی ہے۔ یہاں کے تمام علاقوں میں گندگی پھیل گئی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سڑک بننے سے بہت آرام ہو گیا ہے۔ ہو گا مگر اس قسم کی بے شرمی کے نظارے پہلے کبھی دیکھنے میں نہ آتے تھے۔۔۔ خدا بچائے!‘‘

اس دوران میں پتلون پوش کے ساتھی نے لڑکی کو بازو سے پکڑ لیا۔ اور غالباً اس کو اٹھ کر چلنے کے لیے کہا۔ مگر وہ اپنی جگہ پر بیٹھی رہی۔ یہ دیکھ کر کالو سے نہ رہا گیا اور اس نے رام پرشاد سے کہا،’’آؤ یہ لوگ تو اب دست درازی کر رہے ہیں۔‘‘

کالو یہ کہہ کر اکیلا ہی اس جانب بڑھنے کو تھا۔ کہ ہم نے اسے روک دیا، اور یہ مشورہ دیا، کہ تمام معاملہ پنڈت کے گوش گزار کر دیا جائے۔ جو چارپائی پر سو رہا ہے اور پھر جو وہ کہے اس پر عمل کیا جائے۔ اس تجویز کو معقول خیال کرکے ہم سب پنڈت کے پاس گئے اور اسے جگا کر سارا قصّہ سنا دیا۔ اس نے ہماری گفتگو کو بڑی بے پروائی سے سنا۔ جیسے کوئی بات ہی نہیں۔ اور ان دو نوجوانوں کی طرف دیکھ کر جو اب رام دئی کو خدا معلوم کس طریقے سے منا کر اپنے ساتھ لا رہے تھے کہا، ’’جاؤ تم اپنا کام کرو۔ میں ان سے خود دریافت کر لوں گا۔‘‘

یہ جواب سن کر ہم بے چارگی کی حالت میں اپنے کام پرآ گئے۔ لیکن ہم سب کی نگاہیں رام دئی اور ان دو نوجوانوں پر جمی ہوئی تھی جو اب پل طے کرکے پنڈت کی چارپائی کے قریب پہنچ رہے تھے۔ لڑکے آگے تھےاور رام دئی تھکی ہوئی گھوڑی کی طرح ان کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی۔ جب وہ سب پنڈت کے آگے سے گزرنے لگےتو وہ چارپائی پر سے اٹھا۔۔۔ دو تین منٹ تک ان سے کچھ باتیں کرنے کے بعد وہ بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔

جب پنڈت، رام دئی اور وہ نوجوان ہمارے پاس سے گزرے تو ہم نے دیکھا کہ نوجوانوں کے چہروں پر ایک حیوانی جھلک ناچ رہی ہے،اور پنڈت بڑے ادب سے ان کے ساتھ چل رہا ہے۔ رام دئی کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔۔۔ موٹر کے پاس پہنچ کر پنڈت نے آگے بڑھ کر اس کا دروازہ کھولا۔ پہلے پتلون پوش پھر رام دئی اور اس کے بعد دوسرا نوجوان موٹر میں داخل ہو گئے۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے موٹر چلی اور نظروں سے اوجھل ہو گئی اور ہم آنکھیں جھپکتے رہ گئے۔

’’شیطان، مردود!!‘‘ کالو نے بڑے اضطراب سے یہ دو لفظ ادا کیے۔

اتنے میں پنڈت آ گیا اور ہم کو مضطرب دیکھ کر ایک مصنوعی آواز میں کہنے لگا، ’’میں نے ان سے دریافت کیا ہے، کوئی بات نہیں۔ وہ لڑکی کو ذرا موٹر کی سیر کرانا چاہتے تھے۔ انسپکٹر صاحب کے مہمان ہیں اور ڈاک بنگلے میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ تھوڑی دور لے جا کر اسے چھوڑ دیں گے۔۔۔امیر آدمی ہیں۔ ان کے شغل اسی قسم کے ہوتے ہیں۔‘‘

یہ کہہ کر پنڈت چلا گیا۔

ہم دیر تک خدا معلوم کن گہرائیوں میں غرق رہے کہ دفعتاً فضل کی آواز نے ہمیں چونکا دیا۔ دو مرتبہ زور سے تھوک کر اس نے اپنے ہاتھوں کو گیلا کیا اور بیلچے کو سنگ ریزوں کے ڈھیر میں گاڑتے ہوئے کہا، ’’اگر امیر آدمیوں کے یہی شغل ہیں تو ہم غریبوں کی بہو بیٹیوں کا اللہ بیلی ہے!‘‘


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.