شمع رو عاشق کو اپنے یوں جلانا چاہیئے
شمع رو عاشق کو اپنے یوں جلانا چاہیئے
کچھ ہنسانا چاہیئے اور کچھ رلانا چاہیئے
زندگی کیونکر کٹے بے شغل اس پیری میں آہ
تم کو اب اس نوجواں سے دل لگانا چاہیئے
اس میں سب راز نہاں ہو جائیں گے ہم پر عیاں
پھر اسے اک بار گھر اپنے بلانا چاہیئے
پھر یہ ممکن ہے کہ میرے پاس تو اک دم رہے
کچھ نہ کچھ اے یار بس تجھ کو بہانا چاہیئے
گو بہت ہوشیار عاشق اے پری رو ہیں ترے
لیکن ان میں ایک غمگیںؔ سا دوانہ چاہیئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |