شمع کے تیرے کرشمے نے دل افروزی کی

شمع کے تیرے کرشمے نے دل افروزی کی
by عشق اورنگ آبادی

شمع کے تیرے کرشمے نے دل افروزی کی
ان نے تب دور یہ محفل کی سیہ روزی کی

آئے بو گرمیٔ خورشید سے دل سوزی کی
سرگزشت اپنی کہیں ہم جو سیہ روزی کی

آہ پروانہ یہ کیوں شمع پہ جلتا ہوگا
رات کو بزم میں بو آتی تھی جاں سوزی کی

قحط غم خوار سے ازبسکہ یہ دل جلتا تھا
دل کے جلنے پہ مری شمع نے دل سوزی کی

اشک کا تار لے آنکھوں نے مژہ کی سوزن
جمع کر لخت جگر زور جگر سوزی کی

مہر و مہ ابر و ہوا تیرے لیے سرگرداں
بندہ سنتا ہے عبث فکر نہ کر روزی کی

عشق میں جلتے ہیں روشن ہے یہ ان پر.....
شمع کو طرز سکھایا ہے دل افروزی کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse