شوخ کہتا ہے بے حیا جانا
شوخ کہتا ہے بے حیا جانا
دیکھو دشمن نے تم کو کیا جانا
شعلۂ دل کو ناز تابش ہے
اپنا جلوہ ذرا دکھا جانا
شوق نے دورباش اعدا کو
اس کی محفل میں مرحبا جانا
اس کے اٹھتے ہی ہم جہاں سے اٹھے
کیا قیامت ہے دل کا آ جانا
گھر میں خود رفتگی سے دھوم مچی
کیونکے ہو اس تلک مرا جانا
پوچھنا حال یار ہے منظور
میں نے ناصح کا مدعا جانا
مے نہ اتری گلے سے جو اس بن
مجھ کو یاروں نے پارسا جانا
شکوہ کرتا ہے بے نیازی کا
تو نے مومنؔ بتوں کو کیا جانا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |