شورش سے چشم تر کی زبس غرق آب ہوں

شورش سے چشم تر کی زبس غرق آب ہوں
by ولی اللہ محب

شورش سے چشم تر کی زبس غرق آب ہوں
دن رات بحر غم میں برنگ حباب ہوں

یہ دور اب تو ہے کہ رقیبوں کی بزم میں
تو مست ہو شراب سے اور میں کباب ہوں

مجھ خوں گرفتہ پر مرے قاتل کمر نہ باندھ
میں آپ اپنے قتل کا خواہاں شتاب ہوں

ہر صبح و شام باغ میں صحرا میں جوں نسیم
اس گل کی جستجو کی ہوس پر خراب ہوں

حیرت سے اس کو دیکھتے ہیں مثل آئنہ
افشائے درد دل سے کھڑا بے جواب ہوں

آگاہ ہے خدا ہی محبؔ روز کس لئے
نظروں میں ان بتاں کی محل عتاب ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse