شور آہوں کا اٹھا نالہ فلک سا نکلا

شور آہوں کا اٹھا نالہ فلک سا نکلا
by نظیر اکبر آبادی

شور آہوں کا اٹھا نالہ فلک سا نکلا
آج اس دھوم سے ظالم تیرا شیدا نکلا

یوں تو ہم تھے یوں ہی کچھ مثل انار و مہتاب
جب ہمیں آگ دکھائی تو تماشا نکلا

غم سے ہم بھانمتی بن کے جہاں بیٹھے تھے
اتفاقاً کہیں وہ شوخ بھی واں آ نکلا

سینے کی آگ دکھانے کو دہن سے اپنے
شعلے پر شعلہ بھبھوکے پہ بھبھوکا نکلا

مت شفق کہہ یہ ترا خون فلک پر ہے نظیرؔ
دیکھ ٹپکا تھا کہاں اور کہاں جا نکلا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse