شور اب عالم میں ہے اس شعبدہ پرداز کا
شور اب عالم میں ہے اس شعبدہ پرداز کا
چرخ بھی اک شعبدہ ہے جس سراپا ناز کا
سادہ روی قہر تھی اور اس پہ اب آیا ہے خط
دیکھیے انجام کیا ہوتا ہے اس آغاز کا
تیر ہووے جس کی مژگاں اور ہو ابرو کماں
دل نہ ہو قربان کیوں کر ایسے تیر انداز کا
اس کے شاہین نگہ کو طائر دل کے لیے
پنجۂ مژگاں نہیں گویا ہے چنگل باز کا
عیشؔ مجھ کو بے پر و بالی پر پرواز ہے
میں نہیں محتاج کچھ بال و پر پرواز کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |