شوق بتان انجمن آرا لیے ہوئے
شوق بتان انجمن آرا لیے ہوئے
پھرتا ہوں حشر میں وہی دنیا لیے ہوئے
آتی ہے کس دماغ سے اک اک نگاہ حسن
دل میں ہزار فتنۂ برپا لیے ہوئے
یاد آ رہی ہے ان کی وہ تجدید التفات
پہلوئے صد ندامت ایفا لیے ہوئے
کس کی تلاش ہے کہ سر طور اس طرح
آئے ہو مشعل رخ زیبا لیے ہوئے
بیباک ہیں کہ جان کے پہچانتے نہیں
میری نگاہ رنگ تمنا لیے ہوئے
اب کیا ہو کیف عشق کہ مدت گزر گئی
ان کے لبوں سے جرعۂ صہبا لیے ہوئے
پھر ان کو چھیڑتا ہوں کہ عرصہ بہت ہوا
دل سے کچھ انتقام تمنا لیے ہوئے
دیکھا خرام ناز سہاؔ جا رہے ہیں وہ
پستی کو سوئے عالم بالا لیے ہوئے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |