شوق دربار میں ملتے رہے دربانوں سے

شوق دربار میں ملتے رہے دربانوں سے
by صفی اورنگ آبادی

شوق دربار میں ملتے رہے دربانوں سے
ہم نے آنکھوں سے نہ دیکھا جو سنا کانوں سے

طلب مہر تھی ظاہر مرے ارمانوں سے
کہہ گیا ایک ہی قصہ کئی عنوانوں سے

بزم کی شان گھٹی چاک گریبانوں سے
جانے بھی دیجے خطا ہو گئی نادانوں سے

محو دیدار ہوئے ہم تو کسی کی نہ سنی
نور آنکھوں میں جو آیا تو گئے کانوں سے

ان کے آنے کی خبر آئی الٰہی آمین
کاش آنکھوں سے بھی دیکھوں جو سنا کانوں سے

قیس و فرہاد کی تقلید ہے آشفتہ سری
عاشقی عام ہوئی ایسے ہی نادانوں سے

میں سمجھتا ہوں مجھے آپ نے مہمان کیا
کیوں تعارف نہ کرایا گیا مہمانوں سے

صاحب پہچان لئے جاتے ہیں ان کے عاشق
آرزؤں سے تمناؤں سے ارمانوں سے

کہیں خودداروں کی وحشت کا پتہ چلتا ہے
آستینوں سے گریبانوں سے دامانوں سے

کبھی چھوٹوں سے بڑے کام نکل جاتے ہیں
میل رکھ بار گہہ حسن کے دربانوں سے

درد مندوں پہ ذرا رحم کرو بے دردو
ضبط فریاد زیادہ تو نہیں جانوں سے

وہ جو انجان ہیں محفل میں تو اپنا بھی سلام
ہم بھی ملتے نہیں اس طور کے انجانوں سے

منہ پہ بکھرا لئے بال آپ نے سبحان اللہ
دل لگی دیکھ کے کرتے ہیں پریشانوں سے

اے صفیؔ رنگ جو اپنا ہے اسے کیوں بدلوں
تہمتوں سے مجھے اب ڈر ہے نہ بہتانوں سے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse