شوق سے دل کو تہ تیغ نظر ہونے دو
شوق سے دل کو تہ تیغ نظر ہونے دو
جس طرف اس کی طبیعت ہے ادھر ہونے دو
دل کی کیا اصل ہے پتھر بھی پگھل جائیں گے
اے بتو تم مرے نالوں میں اثر ہونے دو
غیر تو رہتے ہیں دن رات تمہارے دل میں
کبھی اس گھر میں ہمارا بھی گزر ہونے دو
ناصحو ہم تو خریدیں گے متاع الفت
تم کو کیا فائدہ ہوتا ہے ضرر ہونے دو
ولولے اگلی محبت کے کہاں سے لائیں
اور پیدا کوئی دل اور جگر ہونے دو
چھیڑنے کو مرے دربان کہا کرتے ہیں
ٹھہرو جلدی نہ کرو ان کو خبر ہونے دو
کیوں مزا دیکھ لیا دل کی کشش کا تم نے
ہم نہ کہتے تھے محبت میں اثر ہونے دو
اے شب وصل و شب عیش جوانی ٹھہرو
میں بھی ہم راہ تمہارے ہوں سحر ہونے دو
رنج و راحت ہے بشر ہی کے لیے اے جوہرؔ
وہ بھی دن دیکھ لیے یوں بھی بسر ہونے دو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |