شکاری عورتیں (افسانہ)

شکاری عورتیں (1955)
by سعادت حسن منٹو
324936شکاری عورتیں1955سعادت حسن منٹو

میں آج آپ کو چند شکاری عورتوں کے قصّے سناؤں گا۔ میرا خیال ہے کہ آپ کو بھی کبھی ان سے واسطہ پڑا ہوگا۔میں بمبئی میں تھا۔ فلمستان سے عام طور پربرقی ٹرین سے چھ بجے گھر پہنچ جایا کرتا تھالیکن اس روز مجھے دیر ہوگئی، اس لیے کہ ’’شکاری‘‘ کی کہانی پر بحث مباحثہ ہوتا رہا۔

میں جب بمبئے سنٹرل کے اسٹیشن پر اترا تو میں نے ایک لڑکی کو دیکھا جو تھرڈ کلاس کمپارٹمنٹ سے باہر نکلی۔ اس کا رنگ گہرا سانولا تھا۔ ناک نقشہ ٹھیک تھا۔جوان تھی۔ اس کی چال بڑی انوکھی سی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ فلم کا منظر نامہ لکھ رہی ہے۔ میں اسٹیشن سے باہر آیا اور پل پر وکٹوریا گاڑی کا انتظارکرنے لگا۔ میں تیز چلنے کا عادی ہوں اس لیے میں دوسرے مسافروں سے بہت پہلے باہر نکل آیا تھا۔

وکٹوریا آئی اور میں اس میں بیٹھ گیا۔ میں نے کوچوان سے کہا کہ آہستہ آہستہ چلے اس لیے کہ فلمستان میں کہانی پر بحث کرتے کرتے میری طبیعت مکدر ہوگئی تھی۔ موسم خوشگوار تھا۔ وکٹوریا والا آہستہ آہستہ پل پر سے اترنے لگا۔جب ہم سیدھی سڑک پر پہنچے تو ایک آدمی سرپر ٹاٹ سے ڈھکا ہوا مٹکا اٹھائے صدا لگا رہا تھا۔ ’’قلفی۔۔۔قلفی‘‘!

جانے کیوں میں نے کوچوان سے وکٹوریہ روک لینے کے لیے کہااور اس قلفی بیچنے والے سے کہا ایک قلفی دو۔۔۔ میں اصل میں اپنی طبیعت کا تکدر کسی نہ کسی طرح دور کرنا چاہتا تھا۔اس نے مجھے ایک دونے (پتوں کا پیالہ) میں قلفی دی۔ میں کھانے ہی والا تھا کہ اچانک کوئی دھم سے وکٹوریا میں آن گھسا۔ کافی اندھیرا تھا۔ میں نے دیکھا تو وہی گہرے رنگ کی سانولی لڑکی تھی۔میں بہت گھبرایا۔۔۔ وہ مسکرا رہی تھی۔ دونے میں میری قلفی پگھلنا شروع ہوگئی۔

اس نے قلفی والے سے بڑے بے تکلّف انداز میں کہا، ’’ایک مجھے بھی دو۔‘‘ اس نے دے دی۔گہرے سانولے رنگ کی لڑکی نے اسے ایک منٹ میں چٹ کردیا اور وکٹوریا والے سے کہا، ’’چلو۔‘‘

میں نے اس سے پوچھا، ’’کہاں؟‘‘

’’جہاں بھی تم چاہتے ہو۔‘‘

’’مجھے تو اپنے گھر جانا ہے۔‘‘

’’تو گھر ہی چلو۔‘‘

’’تم ہو کون؟‘‘

’’کتنے بھولے بنتے ہو۔‘‘

میں سمجھ گیا کہ وہ کس قماش کی لڑکی ہے۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا، ’’گھر جانا ٹھیک نہیں۔۔۔ اور یہ وکٹوریا بھی غلط ہے۔۔۔ کوئی ٹیکسی لے لیتے ہیں۔‘‘ وہ میرے اس مشورے سے بہت خوش ہوئی۔۔۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس سے نجات کیسے حاصل کروں۔۔۔ اسے دھکا دے کر باہر نکالتاتو اودھم مچ جاتا۔ پھرمیں نے یہ سوچا کہ عورت ذات ہے کہ اس سے فائدہ اٹھا کر کہیں وہ یہ واویلا نہ مچادے کہ میں نے اس سے ناشائستہ مذاق کیا ہے۔

وکٹوریا چلتی رہی اور میں سوچتا رہا کہ یہ مصیبت کیسے ٹل سکتی ہے۔ آخر ہم بے بی ہسپتال کے پاس پہنچ گئے۔ وہاں ٹیکسیوں کا اڈہ تھا۔ میں نے وکٹوریا والے کو اس کا کرایہ ادا کیا اور ایک ٹیکسی لے لی۔ ہم دونوں اس پر بیٹھ گئے۔

ڈرائیور نے پوچھا، ’’کدھر جانا ہے صاحب؟‘‘

میں اگلی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد میں نے اس سے زیر لب کہا،’’مجھے کہیں بھی نہیں جانا ہے۔۔۔ یہ لو دس روپے۔۔۔ اس لڑکی کو تم جہاں بھی لے جانا چاہو لے جاؤ۔ ‘‘وہ بہت خوش ہوا۔دوسرے موڑ پر اس نے گاڑی ٹھہرائی اور مجھ سے کہا،’’ صاحب آپ کو سگریٹ لینے تھے۔۔۔ اس ایرانی کے ہوٹل سے سستے مل جائیں گے۔‘‘میں فوراً دروازہ کھول کرباہر نکلا۔ گہرے رنگ کی لڑکی نے کہا، ’’دو پیکٹ لانا۔‘‘ ڈرائیور اس سے مخاطب ہوا، ’’تین لے آئیں گے۔‘‘ اور اس نے موٹر اسٹارٹ کی اور یہ جا وہ جا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بمبئی ہی کا واقعہ ہے، میں اپنے فلیٹ میں اکیلا بیٹھا تھا۔ میری بیوی شاپنگ کے لیے گئی ہوئی تھی کہ ایک گھاٹن جو بڑے تیکھے نقشوں والی تھی، بے دھڑک اندر چلی آئی۔ میں نے سوچا شاید نوکری کی تلاش میں آئی ہے۔ مگر وہ آتے ہی کرسی پر بیٹھ گئی۔۔۔ میرے سگریٹ کیس سے ایک سگریٹ نکالا اور اسے سلگا کر مسکرانے لگی۔ میں نے اس سے پوچھا، ’’کون ہو تم؟‘‘

’’تم پہچانتے نہیں۔‘‘

’’میں نے آج پہلی دفعہ تمہیں دیکھا ہے۔‘‘

’’سالا جھوٹ مت بولو۔۔۔ روز روز دیکھتا ہے۔‘‘

میں بڑی الجھن میں گرفتار ہوگیا۔۔۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد میرا نوکر فضل دین آگیا۔۔۔ اس نے اس تیکھے نقشوں والی گھاٹن کو اپنی تحویل میں لے لیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ واقعہ لاہور کا ہے۔

میں اور میرا ایک دوست ریڈیو اسٹیشن جارہے تھے۔ جب ہمارا تانگہ اسمبلی ہال کے پاس پہنچا تو ایک تانگہ ہمارے عقب سے نکل کر آگے آگیا۔ اس میں ایک برقع پوش عورت تھی جس کی نقاب نیم وا تھی۔

میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں عجیب قسم کی شرارت ناچنے لگی۔ میں نے اپنے دوست سے جو پچھلی نشست پر بیٹھا تھا،کہا، ’’یہ عورت بد چلن معلوم ہوتی ہے۔‘‘

’’تم ایسے فیصلے ایک دم مت دیا کرو۔‘‘

’’بہت اچھا جناب۔۔۔ میں آئندہ احتیاط سے کام لوں گا۔‘‘

برقع والی عورت کا تانگا ہمارے تانگے کے آگے آگے تھا۔ وہ ٹکٹکی لگائے ہمیں دیکھ رہی تھی۔ میں بڑا بزدل ہوں، لیکن اس وقت مجھے شرارت سوجھی اور میں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے آداب عرض کردیا۔اس کے ادھ ڈھکے چہرے پر مجھے کوئی ردِّ عمل نظر نہ آیا جس سے مجھے بڑی مایوسی ہوئی۔

میرا دوست گٹکنے لگا۔ اس کو میری اس ناکامی سے بڑی مسرت ہوئی لیکن جب ہمارا ٹانگہ شملہ پہاڑی کے پاس پہنچ رہا تھا تو برقع پوش عورت نے اپنا ٹانگہ ٹھہرالیا اور(میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا) وہ نیم اٹھی ہوئی نقاب کے اندر مسکراتی ہوئی آئی اور ہمارے ٹانگے میں بیٹھ گئی۔۔۔ میرے دوست کے ساتھ۔میری سمجھ میں نہ آیا کیا کیا جائے۔ میں نے اس برقع پوش عورت سے کوئی بات نہ کی، اور ٹانگے والے سے کہا کہ وہ ریڈیو اسٹیشن کا رخ کرے۔

میں اسے اندر لے گیا۔۔۔ ڈائریکٹر صاحب سے میرے دوستانہ مراسم تھے۔ میں نے ان سےکہا،’’یہ خاتون ہمیں رستے میں پڑی ہوئی مل گئی۔ آپ کے پاس لے آیا ہوں، اور درخواست کرتا ہوں کہ انہیں یہاں کوئی کام دلوا دیجیے۔‘‘

انہوں نے اس کی آواز کا امتحان کرایا جو کافی اطمینان بخش تھا۔ جب وہ آڈیشن دے کر آئی تو اس نے برقع اتارا ہوا تھا۔ میں نے اسے غور سے دیکھا۔ اس کی عمر پچیس کے قریب ہوگی۔ رنگ گورا،آنکھیں بڑی بڑی۔ لیکن اس کا جسم ایسا معلوم ہوتا تھاجیسے شکر قندی کی طرح بھوبل میں ڈال کر باہر نکالا گیا ہے۔

ہم باتیں کررہے تھے کہ اتنے میں چپراسی آیا۔ اس نے کہا کہ باہر ایک ٹانگہ والا کھڑا ہے، وہ کرایہ مانگتا ہے۔ میں نے سوچا شاید زیادہ عرصہ گزرنے پر وہ تنگ آگیا ہے،چنانچہ میں باہر نکلا۔ میں نے اپنے تانگے والے سے پوچھا، ’’بھئی کیا بات ہے۔ ہم کہیں بھاگ تو نہیں گئے۔‘‘

وہ بڑا حیران ہوا’’کیا بات ہے سرکار؟‘‘

’’تم نے کہلا بھیجا ہے کہ میرا کرایہ ادا کرو۔‘‘

’’میں نے جناب کسی سے کچھ بھی نہیں کہا۔‘‘

اس کے تانگے کے ساتھ ہی ایک دوسرا تانگہ کھڑا تھا۔ اس کا کوچوان جو گھوڑے کو گھاس کھلا رہا تھا، میرے پاس آیا اور کہا، ’’وہ عورت جو آپ کے ساتھ گئی تھی، کہاں ہے؟‘‘

’’اندر ہے۔۔۔ کیوں؟‘‘

’’جی اس نے دو گھنٹے مجھے خراب کیا ہے۔۔۔ کبھی ادھر جاتی تھی،کبھی ادھر۔۔۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ اس کو معلوم ہی نہیں کہ اسے کہاں جانا ہے۔‘‘

’’اب تم کیا چاہتے ہو؟‘‘

’’جی میں اپنا کرایہ چاہتا ہوں۔‘‘

’’میں اسے لے کر آتا ہوں۔‘‘

میں اندرگیا۔۔۔ اس برقع پوش عورت سے جو اپنا برقع اتار چکی تھی، کہا، ’’تمہارا تانگے والا کرایہ مانگتا ہے۔‘‘

وہ مسکرائی، ’’میں دے دوں گی۔‘‘

میں نے اس کا پرس جو صوفے پر پڑا تھا، اٹھایا۔ اس کو کھولا۔۔۔ مگر اس میں ایک پیسہ بھی نہیں تھا۔ بس کے چند ٹکٹ تھے اور دو بالوں کی پنیں۔۔۔ اور ایک واہیات قسم کی لپ اسٹک۔ میں نے وہاں ڈائریکٹر کے دفتر میں کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا۔ ان سے رخصت طلب کی۔ باہر آکر اس کے تانگے والے کو دو گھنٹوں کا کرایہ ادا کیا، اور اس عورت کو اپنے دوست کی موجودگی میں کہا،’’تمہیں اتنا توخیال ہونا چاہیے تھا کہ تم نے تانگہ لے لیا ہے اور تمہارے پاس ایک کوڑی بھی نہیں۔‘‘

وہ کھسیانی ہوگئی، ’’میں۔۔۔ میں۔۔۔ آپ بڑے اچھے آدمی ہیں۔‘‘

’’میں بہت برا ہوں۔۔۔ تم بڑی اچھی ہو۔۔۔ کل سے ریڈیو اسٹیشن آنا شروع کردو۔۔۔ تمہاری آمدنی کی صورت پیدا ہو جائے گی۔ یہ بکواس جو تم نے شروع کر رکھی ہے، اسے ترک کرو۔‘‘

میں نے اسے مزنگ کے پاس چھوڑ دیا۔۔۔ میرا دوست واپس چلا گیا۔۔۔ اتفاقاً مجھے ایک کام سے وہاں جانا پڑا۔دیکھا کہ میرا دوست اور وہ عورت اکٹھے جارہے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ بھی لاہور ہی کا واقعہ ہے۔

چند روز ہوئے، میں نے اپنے دوست کو مجبور کیا کہ وہ مجھے دس روپے دے۔ اس دن بنک بند تھے۔ اس نے معذوری کا اظہار کیا۔ لیکن جب میں نے اس پر زور دیا کہ وہ کسی نہ کسی طرح یہ دس روپے پیدا کرے۔ اس لیے کہ مجھے اپنی ایک علت پوری کرنا ہے، جس سے تم بخوبی واقف ہو، تو اس نے کہا، ’’اچھا، میرا ایک دوست ہے وہ غالباً اس وقت کافی ہاؤس میں ہوگا۔ وہاں چلتے ہیں امید ہے کام بن جائے گا۔‘‘

ہم دونوں تانگے میں بیٹھ کر کافی ہاؤس پہنچے۔ مال روڈ پربڑے ڈاک خانے کے قریب ایک ٹانگہ جارہا تھا۔ اس میں ایک نسواری رنگ کا برقع پہنے ایک عورت بیٹھی تھی۔ اس کی نقاب پوری کی پوری اٹھی ہوئی تھی۔۔۔ وہ ٹانگے والے سے بڑے بے تکلف انداز میں گفتگو کررہی تھی۔ ہمیں اس کے الفاظ سنائی نہیں دیے۔ لیکن اس کے ہونٹوں کی جنبش سے جو کچھ مجھے معلوم ہونا تھا ہوگیا۔

ہم کافی ہاؤس پہنچے تو عورت کا تانگہ بھی وہیں رک گیا۔ میرے دوست نے اندر جا کے دس روپوں کا بندوبست کیا اور باہر نکلا۔۔۔ وہ عورت نسواری برقعے میں جانے کس کی منتظر تھی۔

ہم واپس گھر آنے لگے تو رستے میں خربوزوں کے ڈھیر نظر آئے۔ ہم دونوں تانگے سے اتر کر خربوزے پرکھنے لگے۔ ہم نے باہم فیصلہ کیا کہ اچھے نہیں نکلیں گے کیونکہ ان کی شکل و صورت بڑی بے ڈھنگی تھی۔۔۔ جب اٹھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ نسواری برقع تانگے میں بیٹھا خربوزے دیکھ رہا ہے۔

میں نے اپنے دوست سے کہا، ’’خربوزہ خربوزے کو دیکھ کررنگ پکڑتا ہے۔۔۔ آپ نے ابھی تک یہ نسواری رنگ نہیں پکڑا۔‘‘ اس نے کہا، ’’ہٹاؤ جی۔۔۔ یہ سب بکواس ہے۔‘‘

ہم وہاں سے اٹھ کر تانگے میں بیٹھے۔ میرے دوست کو قریب ہی ایک کیمسٹ کے ہاں جانا تھا۔ وہاں دس منٹ لگے۔ باہر نکلے تو دیکھا کہ نسواری برقع اسی تانگے میں بیٹھا جارہا تھا۔

میرے دوست کو بڑی حیرت ہوئی، ’’یہ کیا بات ہے۔۔۔؟ یہ عورت کیوں بیکار گھوم رہی ہے؟‘‘

میں نے کہا، ’’کوئی نہ کوئی بات تو ضرور ہوگی۔‘‘

ہمارا تانگہ مال روڈ کو مڑنے ہی والا تھا کہ وہ نسواری برقع پھر نظر آیا۔ میرے دوست گو کنوارے ہیں،لیکن بڑے زاہد۔ ان کو جانے کیوں اکساہٹ پیدا ہوئی کہ اس نسواری برقعے سے بڑی بلند آواز میں کہا، ’’آپ کیوں آوارہ پھر رہی ہیں۔۔۔ آئیے ہمارے ساتھ۔‘‘

اس کے تانگے نے فوراً رخ بدلا اور میرا دوست سخت پریشان ہوگیا۔ جب وہ نسواری برقع ہم کلام ہوا تو اس نے اس سے کہا،’’آپ کو تانگے میں آوارہ گردی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ میں آپ سے شادی کرنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘

میرے دوست نے اس نسواری برقعے سے شادی کرلی۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.