شکایت
by یوسف ظفر
330921شکایتیوسف ظفر

شفق کی دلہن اپنے غرفے سے کب تک مجھے دیکھ کر مسکراتی رہے گی
سنہری لبادے کی زر کار کرنیں کہاں تک یوں ہی گنگناتی رہیں گی
کہاں تک زمرد کے پردے پہ یہ سرخ پھولوں کے نغمے مچلتے رہیں گے
کہ آخر کوئی چاند کوئی اندھیرا کسی شرق تیرہ کے در سے نکل کر
ابھی اس کو پہنائے گا تیرگی کا وہ جامہ کہ اس کی جواں ریت امنگیں
ستارے اڑاتی ہوئی ڈوب جائیں گی مغرب کی خاموش خونیں خلا میں
شفق کی دلہن جھانک کر دیکھتی ہے
مجھے دیکھتی ہے
مرے دل کے بجھتے ہوئے سرخ شعلوں کی پرواز بے کار کو دیکھتی ہے
کہ یہ زندگی جو ودیعت ہوئی تھی کہ ہر سمت سیلاب نغمہ بہا دے
حصول مسرت کی خاطر ہر اک سنگ خارا کو اک مرمریں بت بنا دے
وہ بت جو ہر اک تان پر مسکرا دے ہر اک سمت سیلاب نغمہ بہا دے
ہر اک نغمہ تاریک راتوں کے سینوں کو یوں گدگدا دے
کہ تاریکیوں سے وہ انوار پھوٹیں جنہیں آفتاب سحر خود صدا دے
مگر اب یہی زندگی بجھ رہی ہے زمانے کے بیتاب آب رواں میں
شفق کی دلہن جھانک کر دیکھتی ہے کسے دیکھتی ہے مجھے دیکھتی ہے
مجھے دیکھتی ہے تو میں اپنے غرفے کی بانہوں کو ملنے کی تاکید کر دوں
کہ میں تو اسی حال میں رات دن وقت کے نور و ظلمت میں گھلتا رہا ہوں
مرے پاس کوئی سنہری لبادہ نہیں ہے نہ کوئی زمرد کے پردے
مجھے بے سبب دیکھنے میں ہے کیا اب کہ میں اس کو حاصل نہیں کر سکوں گا
مجھے اپنی دن بھر کی تھک ہار کر میرے پاس آنے والی دلہن سے غرض ہے
مری زرد رو ملتجی اور بے حس دلہن مجھ کو ایسے کہاں دیکھتی ہے
اسے اس سے کیا بجھ رہا ہوں دما دم دما دم پیاپے پیاپے و دما دم
اسے ایسی باتوں سے رغبت نہیں ہے
اسے تو غرض اس سے ہے تھک چکی ہے گھریلو شب و روز کی الجھنوں سے
یہ اس کا تقاضا ہے لے جاؤں اس کو کہیں دور بادل سے پربت سے بھی دور
جہاں ہوں سنہری لبادوں کی کرنیں وہ زر کار کرنیں کہ جو گنگنائیں
جہاں ہوں زمرد کے پردوں پہ خوں رنگ پھولوں کے نغمے کہ جو مسکرائیں
جہاں نیلمی سرد غرفے ہوں غرفے
ذرا کھول دوں اپنے غرفے کی باہیں
شفق کی دلہن جا چکی ہے ہر اک سمت ہیں آسماں پرستاروں کے آنسو
ادھر آ ادھر آ مری زرد رو میری بے حس دلہن میری آغوش میں آ
کہ میں ڈر رہا تھا
مجھے دیکھتی تھی شفق کی دلہن تیرے ہوتے ہوئے بھی مجھے دیکھتی تھی
مجھے گھورتی تھی


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.