شکایت سے غرض کیا مدعا کیا
شکایت سے غرض کیا مدعا کیا
نہیں تو دوست دشمن کا گلا کیا
نہ آیا نامہ بر گھبرا رہا ہوں
نہیں معلوم کیا گزری ہوا کیا
بہت اچھی نہایت خوب گزری
اجی آفت زدوں کا پوچھنا کیا
نہ دو مجھ کو مبارک باد بے سود
بری تقدیر والوں کا بھلا کیا
یہ کیوں چتون پھری کیوں آنکھ بدلی
بھلا میں نے قصور ایسا کیا کیا
کب اس کوچے میں ٹھہرے گی مری خاک
نہ ہوگا کوئی احسان ہوا کیا
امید اس سے غلط سمجھا یہ او دل
ستم گر سے تمنائے وفا کیا
بڑھا کر ہاتھ لیں ان کو یہ مشکل
نصیب ایسے مبارک پھر دعا کیا
نہ گھبراؤ اجی کروٹ نہ بدلو
ارادے ہیں ابھی خاطر میں کیا کیا
یہ کب تک پارسائی عاشقوں سے
محبت ہے تو پھر ہم سے حیا کیا
جگر پانی ہے صدموں سے لہو دل
مرے سینے میں او ظالم رہا کیا
کیا ہوتا کوئی احساں تو ظالم
کریں گے شکر تیرا ہم ادا کیا
نہیں ممکن کہ تجھ کو رحم آئے
وہ میں کیا اور میری التجا کیا
معاذ اللہ گر ہے نوجوانی
رہو گے عمر بھر تم پارسا کیا
کہاں ہے درد دل میں جو کہو ہائے
مزا دے گا ہمارا ماجرا کیا
کسے دیکھا کہ بھولا آپ کو بھی
تعجب ہے یہ مجھ کو ہو گیا کیا
نسیمؔ آؤ ذرا تم بھی سنو تو
یہ چرچا ہو رہا ہے جا بہ جا کیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |