شکوؤں پہ ستم آہوں پہ جفا سو بار ہوئی سو بار ہوا

شکوؤں پہ ستم آہوں پہ جفا سو بار ہوئی سو بار ہوا
by نوح ناروی
331268شکوؤں پہ ستم آہوں پہ جفا سو بار ہوئی سو بار ہوانوح ناروی

شکوؤں پہ ستم آہوں پہ جفا سو بار ہوئی سو بار ہوا
ہر بات مجھے ہر کام مجھے دشوار ہوئی دشوار ہوا

ساقی کی نشیلی آنکھوں سے ساری دنیا سارا عالم
بدمست ہوئی بدمست ہوا سرشار ہوئی سرشار ہوا

ہے نام دل مضطر جس کا کہتے ہیں جسے سب جان حزیں
مرنے کے لئے مٹنے کے لئے تیار ہوئی تیار ہوا

اظہار محبت بھی ہے غضب اظہار محبت کون کرے
حجت ان سے جھگڑا مجھ سے ہر بار ہوئی ہر بار ہوا

دنیا میں بہار اب آ پہنچی مے خانے کا در بھی کھل جائے
ایک ایک گلی ایک ایک مکاں گل زار ہوئی گل زار ہوا

کیوں رحم وہ ظالم کرنے لگا کیوں موت یہاں تک آنے لگی
الفت سے مری صورت سے مری بیزار ہوئی بیزار ہوا

حسرت اپنی ارماں اپنا آزار اپنا تکلیف اپنی
ہم درد بنی ہم درد بنا غم خوار ہوئی غم خوار ہوا

ملنے سے تنفر تھا جس کو آغوش میں اب وہ سوتا ہے
تقدیر مری اقبال مرا بیدار ہوئی بیدار ہوا

مقتل میں جفائیں ڈھانے پر مقتل میں جفائیں سہنے پر
قاتل کی نظر بسمل کا جگر تیار ہوئی تیار ہوا

اے نوحؔ یہ کیا سوجھی تم کو طوفان اٹھایا کیوں تم نے
ساری دنیا سارا عالم بیزار ہوئی بیزار ہوا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.