شکوا ہے نہ غصہ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
شکوا ہے نہ غصہ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
کیوں آپ کو دھڑکا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
چپ رہنے دو دم بھر مجھے للہ نہ چھیڑو
اب اس سے تمہیں کیا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
اس لطف زبانی کو ذرا سوچیے دل میں
یہ عذر تو بے جا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
اس لطف زبانی کو ذرا سوچیے دل میں
یہ عذر تو بے جا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
منہ میرا نہ کھلواؤ کہ ہو جائیں گے لب بند
دیکھو یہی اچھا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
ڈرتا نہیں جو دل میں ہو دشمن کے لگائے
ان پر یہ ہویدا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
کیوں رکتے ہو عادت سے ہوں مجبور وگرنہ
کچھ آپ سے پردا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
اب وہ بھی یہ سمجھا کہ یہ سمجھا میری گھاتیں
اس بات سے ڈرتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
ہر روز نئے ڈھنگ ہیں خاطر کے نسیمؔ آہ
کل سے یہی سودا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |