شکوہ جفا کا کیجے تو کہتے ہیں کیا کروں

شکوہ جفا کا کیجے تو کہتے ہیں کیا کروں
by مصطفٰی خان شیفتہ

شکوہ جفا کا کیجے تو کہتے ہیں کیا کروں
تم سے وفا کروں کہ عدو سے وفا کروں

گلشن میں چل کے بندِ قبا تیرے وا کروں
جی چاہتا ہے جامۂ گل کو قبا کروں

آتا ہوں پیرِ دیر کی خدمت سے مست میں
ہاں زاہدو تمہارے لئے کیا دعا کروں

جوشِ فغاں وداع، کہ منظور ہے انہیں
دل نذرِ کاوشِ نگہِ سرما سا کروں

نفرین بے شمار ہے اس عمد و سہو پر
گر ایک میں صواب کروں سو خطا کروں

مطرب بدیع نغمہ و ساقی پری جمال
کیا شرحِ حالتِ دلِ درد آشنا کروں

تم دلربا ہو دل کو اگر لے گئے تو کیا
جب کاہ ہو کے میں اثرِ کہربا کروں

اے چارہ ساز لطف! کہ تو چارہ گر نہیں
بس اے طبیب رحم! کہ دل کی دوا کروں

پیتا ہوں میں مدام مئے نابِ معرفت
اصلِ شرور و امِ خبائث کو کیا کروں

یا اپنے جوشِ عشوۂ پیہم کو تھامئے
یا کہئے میں بھی نالۂ شورش فزا کروں

میں جل گیا وہ غیر کے گھر جو چلے گئے
شعلے سے استعارہء آوازِ پا کروں

ڈر ہے کہ ہو نہ شوقِ مزامیر شیفتہ
ورنہ کبھی سماعِ مجرد سنا کروں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse