شکوہ جو میرا اشک میں ڈھلتا چلا گیا

شکوہ جو میرا اشک میں ڈھلتا چلا گیا
by نیر سلطانپوری

شکوہ جو میرا اشک میں ڈھلتا چلا گیا
سارا غبار دل کا نکلتا چلا گیا

روشن کیا امید نے یوں جادۂ حیات
ہر گام پہ چراغ سا جلتا چلا گیا

راس آ سکی سکوں کو نا تدبیر ضبط غم
آنکھوں سے خون دل کا ابلتا چلا گیا

جس پر مرے فریب تمنا کو ناز تھا
وہ دن بھی انتظار میں ڈھلتا چلا گیا

پچھلے پہر جو شمع نے کھینچی اک آہ سرد
چہرے کا ان کے رنگ بدلتا چلا گیا

بڑھنے لگی یقین و گماں میں جو کشمکش
وعدہ بھی صبح و شام پہ ٹلتا چلا گیا

وہ نوحۂ الم ہو کہ نیرؔ نوائے شوق
ہر نغمہ ایک ساز میں ڈھلتا چلا گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse