شکوہ نہ بخت سے ہے نے آسماں سے مجھ کو
شکوہ نہ بخت سے ہے نے آسماں سے مجھ کو
پہنچی جو کچھ اذیت اپنے گماں سے مجھ کو
قاصد کہے تو ہے تو پوچھے تھا حال تیرا
تصدیق اس کی لیکن ہووے کہاں سے مجھ کو
عاشق نہ تھا میں بلبل کچھ گل کے رنگ و بو کا
اک انس ہو گیا تھا اس گلستاں سے مجھ کو
جاتا ہوں جس جگہ اب واں خانماں ہے میرا
کھویا ہے اے فلک تیں گو خانماں سے مجھ کو
با وصف بے کمالی عزت طلب ہوں قائمؔ
درخور نہ ہو سو کیوں کر اہل جہاں سے مجھ کو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |