شگوفہ محبت/صفت بادشاہِ خجستہ خصال، پری پیکر، ماہ رو، والیِ لکھنؤ، رشکِ فریدون، غیرتِ جم سلطانِ عالم خلّد اللہ ملکہ

صفت بادشاہِ خجستہ خصال، پری پیکر، ماہ رو، والیِ لکھنؤ، رشکِ فریدون، غیرتِ جم سلطانِ عالم خلّد اللہ ملکہ


اور تاج سلطانی اریکۂ جہانبانی نے اُس کے سر و پا سے زیب و زینت پائی ہے جس کے خاندان میں نسلاً بعد نسل فرمانروائی چلی آئی ہے۔ ہر چند کہ موسم شباب ہے، نور کی صورت نہایت آب و تاب ہے، زور شور پر عالم جوانی ہے، نقاش قدرت کے ہاتھ کا نقشہ انتخاب ہے۔ اس پر جتنی خصلتیں فرمانروایان خجستہ خصال کی ماضی و حال کی ہیں سب میں لاثانی ہے، ہمت و جرأت میں یکتا ہے، جود و سخا میں حاتم سے بڑھ گیا ہے، عدل و داد میں یادگار نوشیروان ہے۔ اس چمک دمک کی سلطنت زیر آسمان بروئے زمین دوسری کہاں ہے۔ رفقا کو جاہ و حشمت سے نہال کیا، غریب و غربا کو مال اور دولت سے مالا مال کیا۔ شب شبِ برات، ہر دم عیش و نشاط میں بسر ہوتی ہے۔ روز نو روز، ہر صبح عید کی سحر ہوتی ہے۔ مکانات ایسے بنوائے کہ سمّار کی عقل میں نہ آئے۔ ہر قطعہ فردوس بریں کا نمونہ ہے اور قیصر باغ تو حسن و لطافت میں گلزارِ ارم سے دونا ہے۔ جس چیز کا خیال آیا اسے انتہا کو پہنچایا۔ طبع والا میں نہایت جودت ہے، جو شے ہے اللہ کی قدرت ہے۔ ایسا کرم کارساز اور عنایت بے نیاز ہے کہ اولو العزمی کا سب سامان و ساز ہے۔ وزیر بے نظیر خود سلیمان زمان دہ آصفِ دوران باہم قضیہ لازم و ملزوم ہے، یہ نکتہ سب کو معلوم ہے۔ دیوان ہوشیار وابستۂ فرمان، سر دفتر خیر خواہان کائنات میں فرد ہے۔ دہرم مورت نیک سیرت خوبصورت جوانمرد ہے۔ حساب کیجیے تو سابقین کی نشانی باقی ہے، اس فن میں بڑی مشّاقی ہے۔ فیض کی ندی اس کے دم سے بہی ہے۔ رشوت کھاتا نہیں، بڑی بڑی جفا سہی ہے۔ سپاہی وضع ہر چند نہیں لیکن جان نثاری پر بند نہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ ملازموں میں ایک سے ایک بہتر ہے، یادگارِ روزگار ہے۔ اگر سب کی شرح کروں طول ہو؛ منظور اختصار ہے، جب تک گردش لیل و نہار ہے جلسہ برقرار رہے۔