شہرۂ آفاق مجھ سا کون سا دیوانہ ہے

شہرۂ آفاق مجھ سا کون سا دیوانہ ہے
by حیدر علی آتش

شہرۂ آفاق مجھ سا کون سا دیوانہ ہے
ہند میں میں ہوں پرستاں میں مرا افسانہ ہے

صید گاہ مرغ دل رخسارۂ جانانہ ہے
دام زلف عنبریں ہے خال مشکیں دانہ ہے

حسن سے رتبہ ہے اپنے عشق کامل کا بلند
آستانہ پر پری ہے بام پر دیوانہ ہے

اس میں رہتا ہے صفائے روئے جاناں کا خیال
دل نہیں پہلو میں اپنے آئینہ کا خانہ ہے

بیچتا ہوں دل کو جو محبوب چاہے مول لے
بوسہ قیمت ہے توجہ کی نظر بیعانہ ہے

پھوٹیں وہ آنکھیں نگاہ بد سے جو دیکھیں تجھے
آتشیں رخسار مجمر خال کالا دانہ ہے

روز و شب اس شمع رو کو بھیجتا ہوں خط شوق
نامہ بر دن کو کبوتر رات کو پروانہ ہے

خار خار دل غنیمت جانتا ہوں عشق میں
زلف دود آہ کی آراستگی کاشانہ ہے

شرح لکھا چاہئے اس کی بیاض صبح پر
مطلع خورشید بیت ابرو جانانہ ہے

حالت آئینہ رکھتا ہے صفا سے دل مرا
آشنا سے آشنا بیگانہ سے بیگانہ ہے

قتل سے مجھ سخت جاں کے منکر اے قاتل نہ ہو
حجت قاطع تری تلوار کا دندانہ ہے

واسطے ہر شے کے دنیا میں مقرر ہیں محل
شہر میں جب تک ہے مجنوں گنج بے ویرانہ ہے

باغ عالم میں نہیں اس شوخ سا کوئی حسیں
گل ہے اپنا یار یوسف سبزۂ بیگانہ ہے

اب نہیں اے یار جوبن کو ترے بیم زوال
خط مشکیں حسن کی جاگیر کا پروانہ ہے

حال ہے جس کا اسی کے واسطے ہے خوش نما
نقص ہے تلوار کا وصف ارہ کا دندانہ ہے

یار کھینچے تیغ تیرے قتل کرنے کے لیے
سر جھکا آتشؔ یہ جائے سجدۂ شکرانہ ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse