شیخ کو کعبے سے جو مقصود ہے

شیخ کو کعبے سے جو مقصود ہے
by جوشش عظیم آبادی

شیخ کو کعبے سے جو مقصود ہے
وہ کنشت دل ہی میں موجود ہے

میرے جلنے کی کسی کو کیا خبر
سوزش دل آتش بے دود ہے

نے حرم سے کام ہے نے دیر سے
خانۂ دل ہی مرا مسجود ہے

فرق مت کر عاشق و معشوق میں
خود ایاز اور آپ ہی محمود ہے

کیا پری کیا حور کیا جن و بشر
سب میں وہ شاید مرا مشہود ہے

مشرب عشاق میں اے زاہدو
اس کا جو مخلوق ہے معبود ہے

سنگ و آہن کو یہ کرتی ہے گداز
آہ ہے یہ نغمۂ داؤد ہے

کس سے اے ؔجوشش کہوں میں درد دل
میرے اس کے بولنا مفقود ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse