صبح قیامت آئے گی کوئی نہ کہہ سکا کہ یوں
صبح قیامت آئے گی کوئی نہ کہہ سکا کہ یوں
آئے وہ در سے ناگہاں کھولے ہوئے قبا کہ یوں
گوہر نابسودہ کو زلف میں مت دکھا کہ یوں
میری کمند شوق میں رات کے وقت آ کہ یوں
کیوں کہ جھکے نسیم سے سوچے تھی نرگس چمن
دیکھ کے چشم ناز کو آنے لگی حیا کہ یوں
چاہتے تھے شہود میں غیب کا رنگ دیکھنا
میری ز خویش رفتگی بن گئی رہنما کہ یوں
سہو تھی وضع خاستن بستر عیش وصل سے
دیکھ کے ان کی شوخیاں فتنہ ہوا بپا کہ یوں
دیدۂ اہل عشق ہے نور نگاہ سے تہی
آئے وہ فرش ناز پر چھوڑ کے کفش پا کہ یوں
میں نے کہا کنار ناز چاہئے اس غمیں سے پر
سن کے رقیب زشت کو پاس بٹھا لیا کہ یوں
شعلۂ رشک غیر سے جل کے اٹھانا جائے تھا
دور چراغ بزم نے اٹھ کے بتا دیا کہ یوں
خون شہید عشق وہ کہتے تھے فاش کیسے ہو
رنگ گل عذار سے سرخ ہوئی ہوا کہ یوں
اس کف پا کے بوسہ کی کب مجھے راہ یاد تھی
بدرقۂ طلب ہوئی جرأت سنگ پا کہ یوں
رزق نہیں ہے بن تلاش کہتی تھی تنگیٔ معاش
گردش سنگ آسیا دینے لگی صدا کہ یوں
اس کے خرام شوق سے پس گئی خلق کس روش
مٹ گئی باد تند سے صورت نقش پا کہ یوں
سعیٔ طریق شوق سے فتنے کو آگہی نہیں
اس کی جلو میں دوڑے سے سایہ برہنہ پا کہ یوں
شب کو نموئے رنگ سے خندۂ گل کا ذکر تھا
نشو و نمائے حسن سے ٹکڑے ہوئی قبا کہ یوں
نرگس مہوشاں سے پوچھ گردش آسماں سے پوچھ
سرمہ ہوئے وفا سرشت کیا کہیں اے خدا کہ یوں
صانع گلشن ارم میں نے کہا کہ ہائے ہائے
در پہ اس انجمن سے دور قتل مجھے کیا کہ یوں
میں نے کہا نسیم سے چٹکے ہے غنچہ کس طرح
کنج دہان تنگ سے بوسہ نے دی صدا کہ یوں
ریختہ رشک فارسی اس سے نہ ہو سکا بیاں
محفل عرس میرؔ میں شعر مرے سنا کہ یوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |