صبح کو آئے ہو نکلے شام کے
صبح کو آئے ہو نکلے شام کے
جاؤ بھی اب تم مرے کس کام کے
ہاتھا پائی سے یہی مطلب بھی تھا
کوئی منہ چومے کلائی تھام کے
تم اگر چاہو تو کچھ مشکل نہیں
ڈھنگ سو ہیں نامہ و پیغام کے
چھیڑ واعظ ہر گھڑی اچھی نہیں
رند بھی ہیں ایک اپنے نام کے
قہر ڈھائے گی اسیروں کی تڑپ
اور بھی الجھیں گے حلقے دام کے
محتسب چن لینے دے اک اک مجھے
دل کے ٹکڑے ہیں یہ ٹکڑے جام کے
لاکھوں دھڑکے ابتدائے عشق میں
دھیان ہیں آغاز میں انجام کے
مے کا فتویٰ تو سہی قاضی سے لوں
ٹوک کر رستے میں دامن تھام کے
دور دور محتسب ہے آج کل
اب کہاں وہ دور دورے جام کے
نام جب اس کا زباں پر آ گیا
رہ گیا ناصح کلیجا تھام کے
دور سے نالے مرے سن کر کہا
آ گئے دشمن مرے آرام کے
ہائے وہ اب پیار کی باتیں کہاں
اب تو لالے ہیں مجھے دشنام کے
وہ لگائیں قہقہے سن کر حفیظؔ
آپ نالے کیجئے دل تھام کے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |