صبر وعدے پہ نہ تھا کام تمنائی کا
صبر وعدے پہ نہ تھا کام تمنائی کا
حشر ہے وصل کا دن یا مری رسوائی کا
حشر میں کیا تجھے دیکھیں گے ازل کے بچھڑے
حسن وہ اور زمانہ یہ خود آرائی کا
ابھی حیراں ابھی مضطر ابھی ہشیار ابھی مست
حال دیکھا ہی کرے تیرے تماشائی کا
اف ترا شوق میں بڑھنا وہ لپٹ جانے کو
اف وہ آئینے میں عالم تری انگڑائی کا
مری آنکھوں سے ٹپک پڑتے ہیں آنسو بیخودؔ
نام لیتا ہے اگر کوئی شکیبائی کا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |