صبر کر صبر دل زار یہ وحشت کیا ہے

صبر کر صبر دل زار یہ وحشت کیا ہے
by جمیلہ خدا بخش

صبر کر صبر دل زار یہ وحشت کیا ہے
دشت پر خار میں جانے کی ضرورت کیا ہے

اک تحیر میں پڑا ہوں نہیں ملتا ہے پتہ
چشم بے خواب میں یہ صورت حسرت کیا ہے

دل میں بیٹھے ہیں تو پھر منہ کا چھپانا کیسا
اے بت ہوش ربا آپ کی عادت کیا ہے

لوریاں دے گی قضا چین سے سو جائیں گے
تیرے بیمار کو مرنے کی ضرورت کیا ہے

نیک و بد جب تری مرضی پہ ہوئے ہیں موقوف
بخت کہتے ہیں کسے اور یہ قسمت کیا ہے

دم آخر ہے مرا تم سر بالیں آؤ
ایک ساعت کے ٹھہرنے میں قباحت کیا ہے

روز عشرت میں سمجھتی ہوں جمیلہؔ اس کو
لوگ کس واسطے ڈرتے ہیں قیامت کیا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse