صرف غم ہم نے نوجوانی کی
صرف غم ہم نے نوجوانی کی
واہ کیا خوب زندگانی کی
اپنی بیتی اگر میں تجھ سے کہوں
بات نبڑے نہ اس کہانی کی
تیرے داغوں کی اے غم الفت
خوب ہم نے بھی باغبانی کی
جوں نگہ دل گیا ہے آنکھوں کی راہ
گرچہ ہم نے نگاہبانی کی
کس کے ہاں تم کرم نہیں کرتے
کبھو ایدھر نہ مہربانی کی
اپنے نزدیک درد دل میں کہا
تیرے نزدیک قصہ خوانی کی
ہرزہ گوئی سے مجھ کو دی ہے نجات
ہے گی منت یہ بے زبانی کی
نہیں طاقت کہ دم نکال سکوں
اب یہ نوبت ہے ناتوانی کی
اثرؔ اس حال پہ بھی جیتا ہے
کیا کہوں اس کی سخت جانی کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |