صفائی اس کی جھلکتی ہے گورے سینے میں

صفائی اس کی جھلکتی ہے گورے سینے میں
by نظیر اکبر آبادی

صفائی اس کی جھلکتی ہے گورے سینے میں
چمک کہاں ہے یہ الماس کے نگینے میں

نہ توئی ہے نہ کناری نہ گوکھرو تس پر
سجی ہے شوخ نے انگیا بنت کے مینے میں

جو پوچھا میں "کہاں تھی" تو ہنس کے یوں بولی
"میں لگ رہی تھی اس انگیا موئی کے سینے میں"

پڑا جو ہاتھ مرا سینے پر تو ہاتھ جھٹک
پکاری! "آگ لگے اوئی اس قرینے میں"

جو ایسا ہی ہے تو اب ہم نہ روز آویں گے
کبھو جو آئے تو ہفتے میں یا مہینے میں

کبھو مٹک کبھی بس بس کبھو پیالہ پٹک
دماغ کرتی تھی کیا کیا شراب پینے میں

چڑھی جو دوڑ کے کوٹھے پہ وہ پری اک بار
تو میں نے جا لیا اس کو ادھر کے زینے میں

وہ پہنا کرتی تھی انگیا جو سرخ لاہی کی
لپٹ کے تن سے وہ تر ہو گئی پسینے میں

یہ سرخ انگیا جو دیکھی ہے اس پری کی نظیرؔ
مجھے تو آگ سی کچھ لگ رہی ہے سینے میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse