صفحہ 1 - تشخیص


تشخیص

میں سمندرکی طرف کے کُھلے ہوۓ برآمدے میں آیا۔ ناشتے کی میز آج الگ سے لگی ہوئ تھی۔ جب بھی ہمیں کوئ اہم بات کرنی ہوتی ہے ماں کھا نے کا سامان الگ میز پر رکھتی ہیں۔ میں نےمیز کو دیکھا۔۔۔ میزکودیکھا اور پھرماں کو۔ ” میرا نارنگی کاجوس، پین کیک اورگرم چاۓ کہاں ہے، ماں؟“

” آج ہم پختونی کھانا کھائیں گے۔ آپ کو پتہ ہے کیا بجا ہے؟“ سعدیہ نےماں کے بجاۓ ہنس کر جواب دیا۔

” بہت سے پختون دن میں صرف دو دفعہ کھاتے ہیں۔گیارہ بجےدوپہرکواور پھرمغرب کے بعد“۔ سعدیہ نے مجھ سے اس طرح کہا جیسےایک بچے کوسبق پڑھا تے ہیں۔

میں نےگھڑی میں وقت دیکھا۔گیارہ بجے تھے۔

میں نےماں سے کہا”۔ اس لڑکی کو کیا بیماری لگی ہے؟“

ماں نے کہا”۔ بیٹا تم کھا کرتودیکھو۔ تم کو پسند آۓگا اور آج چاۓ کی جگہ قہوہ بنایا ہے“۔

میں نےاپنی رکابی اِن لوازمات سے بھری، چھری اورکانٹا اٹھانے کے لیے بڑھا توسعدیہ جلدی سے بولی“۔ نہیں بھیا پختون ہاتھ سے کھانا کھاتے ہیں“۔

میں غُرایا۔”خدا ایسی بہن صرف مجھ ہی کودے“۔

میں نے اباجان سے معذرت کرتے ہوۓ کہا کہ اگرمیرا بس چلے تومیں اس بہن کو تکیوں سےاتنا ماروں کہ یہ رو دے اور میں کرسی پر بیٹھ گیا“۔

سعدیہ اُٹھ کر میرے پاس آئ اور پیچھے سےگلےمیں باہیں ڈال کر کہا۔ ” بھائ جان۔ آئیندہ میری چٹکی بہت ذیادہ تکلیف دہ ہوگی“۔ اس نے جھک کرمیرے سر پر پیار کیا اور واپس جا کراپنی کرسی پر بیٹھ گئ۔

ا باجان نے کہا۔ ” میں نے تمہاری گل کی داستاں پڑھی۔ تم نےاس کو لکھ کرسکینہ اور سعدیہ کوتوخوش کردیا۔ مگر میں تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ تم اپنی دوسری بہنوں کو اس ظلم سے کس طرح نجات دلاؤگے“۔

” ابا جان سعدیہ اور میں نے اس پرگھنٹوں بحث کی ہے، پچاس سال سے پختون ، پاکستان اور صوبۂ سرحد کی حکومتیں اس مسئلہ پرکام کر رہی ہیں مگر یہ مسئلہ حل ہونے کے بجاۓ اور بھی خراب ہورہا ہے ہم دونوں اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ یہ لوگ اس مسئلہ کی بنیاد کو سمجھنے سے قاصِر ہیں“۔