صفحہ 2 - تصور

اس نے فوراً مقامی اخباروں میں ایک اشتہار چھپوایا۔” اگر میرے پاس ایک ملین ڈالر ہوں تو میں یہ کروں گا“۔اس کے بعد اس نے بیٹھ کرایک خطاب لکھا۔ اس کو اپنے منصوبے کی ایک ایک بات پتہ تھی۔ جب وہ خطبہ گاہ پر پہنچا تو اس کو خیال آیا کہ اس جوش و جذبہ میں وہ اپنے وعظ کوگھر بھول آیا ہے۔اس نے اس خطبہ کو اپنی خوابوں کی روح اور دل سے دیا۔ اس نے کہا کہ وہ کس طرح سے ایک ملین ڈالرسے کالج کھولے گا جو نہ صرف لوگوں کو”درسی تعلیم”جو ان کے دماغوں کو روشن کرے بلکہ ’ ہُنر‘ کی بھی تعلیم دے گا۔

جب خطیب ڈاکٹر فرینک گن زاؤلس نے اپنا واعظ ختم کیا اور بیٹھ گۓ۔ایک شخص سامعین میں سے منبر پر آیا اور ڈاکٹر سے ہاتھ ملا کر کہا۔ میرا نام فلیپ ارمر ہے اور مجھے تمہارا وعظ پسند آیا۔تم کل میرے آفس آؤ تو میں تم کو ایک ملین ڈالر دوں گا۔ ڈاکٹرگن زاؤلس دوسرے دن مسٹر ارمر کے آفس پہنچا۔ مسٹر ارمر نے ڈاکٹرگن زاؤلس کو ایک ملین ڈالر پیش کیے۔


آج اس کالج کا نام ‘ ایلینوائے انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ‘ ہے۔

” پہلے دو سال اور اس ہفتہ میں کیا فرق تھا؟“۔

” دیکھو ، جب خطیب ڈاکٹر نے فیصلۂ مقرر کیااور منصوبۂ مقرر بنایا تو 36 گھنٹے بعد اس کو اس کی خواہش کا صلہ ملا“۔