صفحہ 3 - حدود ارڈنینس

رفعت نے کہا۔ ” کیا آپ کو پتہ ہے کہ 7 نومبر1987 میں ایک کورٹ نے 25 سالہ شاہدہ پروین اور 30 سال کے محمد سرور کو سنگسار کرنےکی سزا دی۔ اُن کا قابلِ نفرت جرم جس کی یہ ہولناک سزا ‘ دی گئ اسے زنابالجبر’ کہاگیا۔ شاہدہ نے کورٹ کے ذریعے اپنے پہلے شوہر سے طلاق لی۔ طلاق کے کاغذات پر شاہدہ اور اس کے پہلے شوہر نے مجسٹریٹ کے سامنے دستخط کئے۔قانون کے مطابق شوہر کو یہ کاغذات مقامی کونسل کے دفتر میں داخل ِرجسٹر کرنا چاہۓ تھے۔ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ شاہدہ کو اس کا علم نہیں تھا۔اس نےعدت کے 97 دن لاہور میں گزارنے کے بعد دوسری شادی سرور سے کرلی۔ شاہدہ قانون کی نظر ایک بالغ لڑکی تھی۔

اُس کے پہلے شوہر نے کورٹ میں مقدمہ دائر کیا کہ شاہدہ اس کی بیوی ہے۔ کیوں کہ اس نے طلاق کے کاغذات مقامی کونسل کے دفتر میں داخل رجسٹر نہیں کرائے ہیں۔ شاہدہ کی دوسری شادی زنا اور زنابالجبرہے۔اس قسم کی دسیوں مثالیں ہیں۔ پاکستان کے 1979 ، حدود آرڈینینس کا جو پاکستانی عورتوں کے حقوق کےساتھ جو ناانصافی اور ہے اس کا نظیر دنیا میں مشکل سے ملے گا۔ صرف 1987 میں 55 کیسوں میں 37 کیس ایسے تھے“

احسان نے کہا۔” دوسرا کیس۔ ایک یتیم 13 سال کی بچی کا ہے۔ جہاں مینا کے ساتھ اس کا چچا اور چچا کا لڑ کا زنابالجبر کرتا ہے۔جب مینا اپنے چچاؤں سے اس ظلم کا ذکر کرتی ہے تواس پر کوئ یقین نہیں کرتا۔ جب وہ پیٹ سے ہو جاتی ہے توآخرکار ایک چچا کواس بچی کی بات پر یقین آتا ہے۔ کورٹ میں کیس جاتا ہے۔ زنا کے مظلوم کے بیان کی قانون کے مطابق کوئ اہمیت نہیں ہے۔یا تو زنا چار آدمی کے سامنے کیا گیا ہو۔ یا پھر زناکار خود اپنے جرم کا اقبال کرلے۔ اس لیے مینا کو قصور وار ٹھرایا گیا اور اس کو 3 سال کی سخت قید اور 10 کوڑوں کی سزا دی گئ“۔

” پہلی جون 1999 کو یار حسین کو جب یہ پتہ چلا کہ اس کی بیٹی مملکت بی بی اپنی پسند کی شادی کرنا چاہتی ہے تو اس نے اس کو سوتے میں قتل کردیا“۔ رفعت نے کہا۔

کنور بولی۔”کراچی میں عورتوں کی مدد اور وسیلہ کی جگہ ’ شرکت گاہ ‘ کی رپورٹ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ 1993 سے 1998 میں 535 عورتوں کو ان کے شوہر یا رشتہ داروں نے قتل کیا اور یاانہوں نے خودکشی کرلی۔ ’ پاکستان کاادارۂ حقوق انسانی‘ کے مطابق ہر روز 8 عورتیں زنا بالجبر کا شکار ہوتی ہیں۔ ان میں سے 5 بچیاں ہوتی ہیں۔ اس قانون کواسلامی شریعہ کے مطابق ضیاءالحق کی حکومت نے 1979 میں صدر کےحکم سے نافذ کیا۔ جو کہ بعد میں ملک کا قانون بن گیا“۔